قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا (١) ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے۔
موحدین کے لیے خوش خبریاں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی ، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے ، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہو گا ، «وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ أَکْبَرُ» ۱؎ (9-التوبۃ:72) فی الواقع رب کی رضا مندی زبردست چیز ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ { پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا ، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے ، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضا مندی کا اظہار کرے گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1256/4:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ یہ ایسی بے مثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ» ۱؎ (37-الصفات:61) ’ اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیئے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَفِی ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ» (83-المطففین:26) ’ رغبت کرنے والے اس کی رغبت کر لیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ سب کا خالق ، سب کا مالک ، سب پر قادر ، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے ، اس جیسا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے ، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے ، نہ باپ ، نہ اولاد نہ بیوی ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ کوئی اس کے سوا رب ہے ‘ ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ما فرماتے ہیں ۔ سب سے آخری سورت یہی سورۃ المائدہ اتری ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3063،قال الشیخ الألبانی:-ضعیف) [ الحمداللہ سورۃ المائدہ کی تفسیر ختم ہوئی ]