سورة المآئدہ - آیت 107

فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں (٣) تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور وہ شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے (٢) یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری یہ قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا، ہم اس حالت میں سخت ظالم ہونگے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 پھر اگر یہ مشہور ہو یا ظاہر ہو جائے یا اطلاع مل جائے کہ ان دونوں نے مرنے والے کے مال میں سے کچھ چرا لیا یا کسی قسم کی خیانت کی ۔ «أَوْلَیَانِ» کی دوسری قرأت «‏‏‏‏اَوّلَانِ» بھی ہے مطلب یہ ہے کہ جب کسی خبر صحیح سے پتہ چلے کہ ان دونوں نے کوئی خیانت کی ہے تو میت کے وارثوں میں سے جو میت کے زیادہ نزدیک ہوں وہ دو شخص کھڑے ہوں اور حلیفہ بیان دیں کہ ہماری شہادت ہے کہ انہوں نے چرایا اور یہی زیادہ حق زیادہ صحیح اور پوری سچی بات ہے ، ہم ان پر جھوٹ نہیں باندھتے اگر ہم ایسا کریں تو ہم ظالم ۔ یہ مسئلہ اور قسامت کا مسئلہ اس بارے میں بہت ملتا جلتا ہے ، اس میں بھی مقتول کے اولیاء قسمیں کھاتے ہیں ، تمیم داری سے منقول ہے کہ اور لوگ اس سے بری ہیں صرف میں اور عدی بن بداء اس سے متعلق ہیں ، یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے ملک شام میں بغرض تجارت آتے جاتے تھے ابن سہم کے مولی بدیل بن ابومریم بھی مال تجارت لے کر شام کے ملک گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا ، جسے وہ خاص بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے لے جا رہے تھے ۔ اتفاقاً وہ بیمار ہوگئے ان دونوں کو وصیت کی اور مال سونپ دیا کہ یہ میرے وارثوں کو دے دینا اس کے مرنے کے بعد ان دونوں نے وہ جام تو مال سے الگ کر دیا اور ایک ہزار درہم میں بیچ کر آدھوں آدھ بانٹ لیے باقی مال واپس لا کر بدیل کے رشتہ داروں کو دے دیا ، انہوں نے پوچھا کہ چاندی کا جام کیا ہوا ؟ دونوں نے جواب دیا ہمیں کیا خبر ؟ ہمیں تو جو دیا تھا وہ ہم نے تمہیں دے دیا ۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے اور اسلام نے مجھ پر اثر کیا ، میں مسلمان ہوگیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ انسانی حق مجھ پر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں میں پکڑا جاؤں گا تو میں بدیل کے وارثان کے پاس آیا اور اس سے کہا پانچ سو درہم جو تونے لے لیے ہیں وہ بھی واپس کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ { اس سے قسم لی جائے } ۔ اس پر یہ آیت اتری اور عمرو بن العاص نے اور ان میں سے ایک اور شخص نے قسم کھائی عدی بن بداء کو پانچ سو درہم دینے پڑے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3059،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ عدی جھوٹی قسم بھی کھا گیا تھا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ارض شام کے اس حصے میں کوئی مسلمان نہ تھا ، یہ جام چاندی کا تھا اور سونے سے منڈھا ہوا تھا اور مکے میں سے جام خریدا گیا تھا جہاں سے ملا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے ، اب میت کے دو وارث کھڑے ہوئے اور قسم کھائی ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2780) ایک روایت میں ہے کہ قسم عصر کی نماز کے بعد اٹھائی تھی ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک مسلمان کی وفات کا موقعہ سفر میں آیا ، جہاں کوئی مسلمان اسے نہ ملا تو اس نے اپنی وصیت پر دو اہل کتاب گواہ رکھے ، ان دونوں نے کوفے میں آ کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے سامنے شہادت دی وصیت بیان کی اور ترکہ پیش کیا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ واقعہ پہلا ہے پس عصر کی نماز کے بعد ان سے قسم لی کہ نہ انہوں نے خیانت کی ہے ، نہ جھوٹ بولا ہے ، نہ بدلا ہے ، نہ چھپایا ہے ، نہ الٹ پلٹ کیا ہے بلکہ سچ وصیت اور پورا ترکہ انہوں نے پیش کر دیا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی شہادت کو مان لیا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3065،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہی ہے کہ ایسا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تمیم اور عدی کا ہوا تھا اور اب یہ دوسرا اس قسم کا واقع ہے ، تمیم بن داری رضی اللہ عنہ کا اسلام سنہ ٩ ہجری کا ہے اور یہ آخری زمانہ ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں لازم ہے کہ موت کے وقت وصیت کرے اور دو گواہ رکھے اگر سفر میں ہے اور مسلمان نہیں ملتے تو خیر غیر مسلم ہی سہی ۔ انہیں وصیت کرے اپنا مال سونپ دے ، اگر میت کے وارثوں کو اطمینان ہو جائے تو خیر آئی گئی بات ہوئی ورنہ سلطان اسلام کے سامنے وہ مقدمہ پیش کر دیا جائے ۔ اوپر جو واقعہ بیان ہوا اس میں یہ بھی ہے کہ جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے عصر کے بعد قسم لینی چاہی تو آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ انہیں عصر کے بعد کی کیا پرواہ ؟ ان سے ان کی نماز کے وقت قسم لی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر تم نے کچھ چھپا یا یا خیانت کی تو ہم تمہیں تمہاری قوم میں رسوا کر دیں گے اور تمہاری گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اور تمہیں سنگین سزا دی جائے گی ، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کی زبان سے حق بات معلوم ہو جائے پھر بھی اگر شک شبہ رہ جائے اور کسی اور طریق سے ان کی خیانت معلوم ہو جائے تو مرحوم کے دو مسلمان وارث قسمیں کھائیں کہ ان کافروں کی شہادت غلط ہے تو ان کی شہادت غلط مان لی جائے گی اور ان سے ثبوت لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ’ اس صورت میں فائدہ یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک آ جائے گی ایک تو اللہ کی قسم کا لحاظ ہوگا دوسرے لوگوں میں رسوا ہونے کا ڈر رہے گا ، لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے سب کاموں میں ڈرتے رہو اس کی باتیں سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ، جو لوگ اس کے فرمان سے ہٹ جائیں اور اس کے احکام کے خلاف چلیں وہ راہ راست نہیں پاتے ‘ ۔