يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو (١)
پانسہ بازی ، جوا اور شراب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے روکتا ہے ۔ شراب کی ممانعت فرمائی ، پھر جوئے کی روک کی ۔ امیر المونین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے “ ۔ (ابن ابی حاتم) عطاء ، مجاہد اور طاؤس رحمہ اللہ علیہم سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ ” جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو “ ۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیچتے تھے ، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے ۔ قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے “ ۔ ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے ، یہ بھی جوا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1196/4:ضعیف) صحیح مسلم شریف میں ہے { پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2260) سنن میں ہے کہ { وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4938،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، مسند میں ہے { پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:370/5:ضعیف) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ «أَنصَابُ» ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ۔ «اَزْلاَمُ» ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ ’ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں ۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ‘ ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے ۔