وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ
اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم (١) میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔
صورتیں مسخ کر دی گئیں اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ الاعراف میں ہے جہاں فرمایا «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ» (7-الأعراف:163) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا ۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی ۔ گڑھے کھود لیے ۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے ۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں ۔ یہاں پھنس گئیں ۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا ۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے ، جیسے «کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا» ( 62-الجمعۃ : 5 ) عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ الاعراف کی آیت «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ» (7-الأعراف:163) اور آیت «وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ» (5-المائدۃ:60) پر نظر ڈالو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:210/1) حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندر بنا دئیے گئے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:209/1)آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے ؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:209/1) تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی ۔ یہ بندر جو اب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم:2/167) اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے ۔ ( آمین ) «خاسین» کے معنی ذلیل اور کمینہ ۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے ۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا ۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی ۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے ۔ بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی ۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لیے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا ۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو ۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لیے اور دوسرے اس لیے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں ۔ بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے ۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازہ اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لیے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے ؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں ۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «فجعلناھا» میں «ھا» کی ضمیر کا مرجع «قِرَدَۃً» ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع «حَیتان» ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع «عُقُوْبَۃ» ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا «قِرَدَۃً» ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لیے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ ہیں ۔ «نَکَالَ» کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے «فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی» ( 79 ۔ النازعات : 25 ) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لیے جیسے اور جگہ ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 46 ۔ الاحقاف : 27 ) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا» ( 13 ۔ الرعد : 41 ) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے ۔ گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لیے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے ابن عباس رضی اللہ عنہا اور سعید بن جبیر رحمۃ اللہ کی ۔ واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لیے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا ، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی ، یعنی آس پاس کی بستیاں ، قرآن فرماتا ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 46 ۔ الاحقاف : 27 ) اور فرمان ہے «وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً اَوْ یَاْتِیَہُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ» ( 22 ۔ الحج : 55 ) اور فرمان ہے آیت «اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا اَفَـہُمُ الْغٰلِبُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 44 ) ۔ غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور اسی لیے فرمایا «وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 66 ) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لیے موجب نصیحت ہو ۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے ، ان کے مکر و فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں ۔ ایک صحیح حدیث امام ابوعبداللہ بن بطہٰ رحمہ اللہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل» یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو ۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ (تحذیب السنن :103/5:جید )اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»