لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کردینا چاہیے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں اور زمین دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے (١)۔
اللہ وحدہ لا شریک ہے اللہ تبارک و تعالیٰ عیسائیوں کے کفر کو بیان فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو الوہیت کا درجہ دے رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے ، تمام چیزیں اس کی محکوم اور مقدور ہیں ، ہر چیز پر اس کی حکومت اور ملکیت ہے ۔ کوئی نہیں جو اسے کسی ارادے سے باز رکھ سکے ، کوئی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف لب کشائی کی جرأت کر سکے ۔ وہ اگر مسیح کو ، ان کی والدہ کو اور روئے زمین کی تمام مخلوق کا موجد و خالق وہی ہے ۔ سب کا مالک اور سب کا حکمراں وہی ہے ۔ جو چاہے کر گزرے کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں ، اس سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا ، اس کی سلطنت و مملکت بہت وسیع ہے ، اس کی عظمت ، عزت بہت بلند ہے ، وہ عادل و غالب ہے ۔ جسے جس طرح چاہتا ہے بناتا بگاڑتا ہے ، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں ‘ ۔ نصرانیوں کی تردید کے بعد اب یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کی تردید ہو رہی ہے کہ ’ انہوں نے اللہ پر ایک جھوٹ یہ باندھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ، ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور وہ اللہ کے لاڈلے فرزند ہیں ‘ ۔ اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل علیہ السلام کو کہا ہے «[ أَنْتَ ابْنِی بِکْرِی]» پھر تاویلیں کر کے مطلب الٹ پلٹ کر کے کہتے کہ جب وہ اللہ کے بیٹے ہوئے تو ہم بھی اللہ کے بیٹے اور عزیز ہوئے حالانکہ خود ان ہی میں سے جو عقلمند اور صاحب دین تھے وہ انہیں سمجھاتے تھے کہ ان لفظوں سے صرف بزرگی ثابت ہوتی ہے ، قرابت داری نہیں ۔ اسی معنی کی آیت نصرانی اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا «[ إِنِّی ذَاھِبٌ اِلـٰی اَبِیْ وَاَبِیْکُمْ]» اس سے مراد بھی سگا باپ نہ تھا بلکہ ان کے اپنے محاورے میں اللہ کیلئے یہ لفظ بھی آتا تھا ۔ پس مطلب اس کا یہ ہے کہ میں اپنے اور تمہارے رب کی طرف جا رہا ہوں اور عبادت کا مفہوم واضح بتا رہا ہے کہ یہاں اس آیت میں جو نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ، وہی نسبت ان کی تمام امت کی طرف ہے لیکن وہ لوگ اپنے باطل عقیدے میں عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ سے جو نسبت دیتے ہیں ، اس نسبت کا اپنے اپنے اوپر اطلاق نہیں مانتے ۔ پس یہ لفظ صرف عزت و وقعت کیلئے تھا نہ کہ کچھ اور ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ ’ اگر یہ صحیح ہے تو پھر تمہارے کفر و کذب ، بہتان و افتراء پر اللہ تمہیں سزا کیوں کرتا ہے ؟ ‘ ۔ کسی صوفی نے کسی فقیہ سے دریافت فرمایا کہ ” کیا قرآن میں یہ بھی کہیں ہے کہ حبیب اپنے حبیب کو عذاب نہیں کرتا ؟ اس سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو صوفی نے یہی آیت تلاوت فرما دی “ ۔ یہ قول نہایت عمدہ ہے اور اسی کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ راہ سے گزر رہے تھے ، ایک چھوٹا سا بچہ راستہ میں کھیل رہا تھا ، اس کی ماں نے جب دیکھا کہ اسی جماعت کی جماعت اسی راہ آ رہی ہے تو اسے ڈر لگا کہ بچہ روندا نہ جائے میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی ہوئی آئی اور جھٹ سے بچے کو گود میں اٹھا لیا اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ عورت تو اپنے پیارے بچے کو کبھی بھی آگ میں نہیں ڈال سکتی “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { ٹھیک ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیارے بندوں کو ہرگز جہنم میں نہیں لے جائے گا } ۔ “ ۱؎ (مسند احمد:104/3:صحیح) یہودیوں کے جواب میں فرماتا ہے کہ ’ تم بھی منجملہ اور مخلوق کے ایک انسان ہو تمہیں دوسروں پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں ، اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں پر حاکم ہے اور وہی ان میں سچے فیصلے کرنے والا ہے ، وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے پکڑے ، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے ، اس کا کوئی حاکم نہیں ، اسے کوئی رد نہیں کر سکتا ، وہ بہت جلد بندوں سے حساب لینے والا ہے ۔ زمین و آسان اور ان کے درمیان کی مخلوق سب اس کی ملکیت ہے “ اس کے زیر اثر ہے ، اس کی بادشاہت تلے ہے ، سب کا لوٹنا اس کی طرف ہے ، وہی بندوں کے فیصلے کرے گا ، وہ ظالم نہیں عادل ہے ، نیکوں کو نیکی اور بدوں کو بدی دے گا ‘ ۔ نعمان بن آصا ، بحر بن عمرو ، شاس بن عدی جو یہودیوں کے بڑے بھاری علماء تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا بجھایا ، آخرت کے عذاب سے ڈرایا تو کہنے لگے سنئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ڈرا رہے ہیں ، ہم تو اللہ کے بچے اور اس کے پیارے ہیں ، یہی نصرانی بھی کہتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11616:ضعیف) ان لوگوں نے ایک بات یہ بھی گھڑ کر مشہور کر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرائیل علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیرا پہلونٹھا بیٹا میری اولاد میں سے ہے ۔ اس کی اولاد چالیس دن تک جہنم میں رہے گی ، اس مدت میں آگ انہیں پاک کر دے گی اور ان کی خطاؤں کو کھا جائے گی ، پھر ایک فرشتہ منادی کرے گا کہ اسرائیل کی اولاد میں سے جو بھی ختنہ شدہ ہوں ، وہ نکل آئیں ، یہی معنی ہیں ان کے اس قول کے جو قرآن میں مروی ہے ’ وہ کہتے ہیں ہمیں گنتی کے چند ہی دن جہنم میں رہنا پڑے گا ‘ ۔