يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کہنیوں سمیت دھو لو (١)۔ اپنے سروں کو مسح کرو (٢) اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو (٣) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو (٤) ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم سے کوئی حاجت ضروری فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو (٥) اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا (٦) بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے (٧) تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔
وضو اور غسل کے احکامات اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ حکم وضو اس وقت ہے جب کہ آدمی بے وضو ہو ۔ ایک جماعت کہتی ہے جب تم کھڑے ہو یعنی نیند سے جاگو یہ دونوں قول تقریباً ایک ہی مطلب کے ہیں اور حضرات فرماتے ہیں آیت تو عام ہے اور اپنے عموم پر ہی رہے گی لیکن جو بے وضو ہو اس پر وضو کرنے کا حکم وجوباً ہے اور جو با وضو ہو اس پر استحباباً ۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ابتداء اسلام میں ہر صلٰوۃ کے وقت وضو کرنے کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کیلئے تازہ وضو کیا کرتے تھے ، فتح مکہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا اور اسی ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کیں ، یہ دیکھ کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا جو آج سے پہلے نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں میں نے بھول کر ایسا نہیں کیا بلکہ جان بوجھ کر قصداً یہ کیا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:277) ابن ماجہ وغیرہ میں کہ { جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے تو نیا وضو کر لیا کرتے اور وضو ہی کے بچے ہوئے پانی سے جرابوں پر مسح کر لیا کرتے ۔ یہ دیکھ کر فضل بن مبشر نے سوال کیا کہ کیا آپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟ فرمایا ” نہیں بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:511،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کیلئے تازہ وضو کرتے دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ٹوٹا ہو ان کے صاحبزادے عبیداللہ رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ اس کی کیا سند ہے ؟ فرمایا اس سے سیدہ اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ ان سے سیدنا عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جو فرشتوں کے غسل دئیے ہوئے کے صاحبزادے تھے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کیلئے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس حالت میں وضو باقی ہو تو بھی اور نہ ہو تو بھی ، لیکن اس میں قدرے مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے حکم کے بدلے مسواک کا حکم رکھا گیا ہاں جب وضو ٹوٹے تو نماز کیلئے نیا وضو ضروری ہے اسے سامنے رکھ کر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ چونکہ انہیں قوت ہے اس لیے وہ ہر نماز کے وقت وضو کرتے ہیں ۔ آخری دم تک آپ کا یہی حال رہا } ۔ «رضی اللہ عنہ وعن والدہ» ۔ ۱؎ (مسند احمد:225/5:قال الشیخ الألبانی:حسن) اس کے ایک راوی محمد بن اسحاق رحمہ اللہ ہیں لیکن چونکہ انہوں نے صراحت کے ساتھ «حدثنا» کہا ہے اس لیے تدلیس کا خوف بھی جاتا رہا ۔ ہاں ابن عساکر کی روایت میں یہ لفظ نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل اور اس پر ہمیشگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستحب ضرور ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ خلفاء رضی اللہ عنہم ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرتے تھے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ یوم القیامہ ہر نماز کیلئے وضو کرتے اور دلیل میں یہ آیت تلاوت فرما دیتے ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز ادا کی پھر لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما رہے تھے پھر پانی لایا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے منہ دھویا ہاتھ دھوئے پھر سر کا مسح کیا اور پھر پیر کا ۔ اور فرمایا ” یہ وضو ہے اس کا جو بے وضو نہ ہوا ہو “ ، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے خفیف وضو کر کے بھی یہی فرمایا تھا ۔ سیدنا عمر فاروق رضوان اللہ علیہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ابوداؤد طیالسی میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وضو ٹوٹے بغیر وضو کرنا زیادتی ہے ۔ اولاً تو یہ فعل سنداً بہت غریب ہے ، دوسرا یہ کہ مراد اس سے وہ شخص ہے جو اسے واجب جانتا ہو اور صرف مستحب سمجھ کر جو ایسا کرے وہ تو عامل بالحدیث ہے ۔ بخاری سنن وغیرہ میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کیلئے نیا وضو کرتے تھے ، ایک انصاری نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر کہا اور آپ لوگ کیا کرتے تھے ؟ فرمایا ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھتے تھے جب تک وضو ٹوٹے نہیں } ۱؎ (صحیح بخاری:214) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { جو شخص وضو پر وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں } ، ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے ۱؎ (سنن ترمذی:59،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور امام ترمذی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ آیت سے صرف اتنا ہی مقصود ہے کہ کسی اور کام کے وقت وضو کرنا واجب نہیں صرف نماز کیلئے ہی اس کا وجوب ہے ۔ یہ فرمان اس لیے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ وضو ٹوٹنے پر کوئی کام نہ کرتے تھے جب تک پھر وضو نہ کر لیں ابن ابی حاتم وغیرہ کی ایک ضعیف غریب روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کا ارادہ کرتے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بولتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب نہ دیتے ہم سلام علیک کرتے پھر بھی جواب نہ دیتے یہاں تک کہ یہ آیت رخصت کی اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11342:ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے اور کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا تو ہم نے کہا اگر فرمائیں تو وضو کا پانی کا حاضر کریں فرمایا : { وضو کا حکم تو مجھے صرف نماز کیلئے کھڑا ہونے کے وقت ہی کیا گیا ہے } } ۔ امام ترمذی اسے حسن بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3760،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے کچھ نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے جو میں وضو کروں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:374) آیت کے ان الفاظ سے کہ ’ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو وضو کر لیا کرو ‘ علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ وضو میں نیت واجب ہے ، مطلب کلام اللہ شریف کا یہ ہے کہ نماز کیلئے وضو کر لیا کرو ۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے ، جب تو امیر کو دیکھے تو کھڑا ہو جا تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ امیر کیلئے کھڑا ہو جا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی ہے جو وہ نیت کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1) اور منہ کے دھونے سے پہلے وضو میں «بِسْمِ اللہِ » کہنا مستحب ہے ۔ کیونکہ ایک پختہ اور بالکل صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس شخص کا وضو نہیں جو اپنے وضو میں «بِسْمِ اللہِ » نہ کہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:101 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) [ حدیث کے ظاہری الفاظ تو نیت کی طرح «بِسْمِ اللہِ » کہنے پر بھی وجوب کی دلالت کرتے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] یہ بھی یاد رہے کہ وضو کے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کا ان کا دھو لینا مستحب ہے اور جب نیند سے اٹھا ہو تب تو سخت تاکید آتی ہے بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { تم میں سے کوئی نیند سے جاگ کر برتن میں ہاتھ نہ ڈالے جب تک کہ تین مرتبہ دھو نہ لے ، اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ رات کے وقت کہاں رہے ہوں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:162) منہ کی حد فقہاء کے نزدیک لمبائی میں سر کے بالوں کی اگنے کی جو جگہ عموماً ہے وہاں سے داڑھی کی ہڈی اور تھوڑی تک ہے اور چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک ۔ اس میں اختلاف ہے کہ دونوں جانب کی پیشانی کے اڑے ہوئے بالوں کی جگہ سر کے حکم میں ہے یا منہ کے ؟ اور داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کا دھونا منہ کے دھونے کی فرضیت میں داخل ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ، ایک تو یہ کہ ان پر پانی کا بہانا واجب ہے اس لیے کہ منہ سامنے کرنے کے وقت اس کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو داڑھی ڈھانپے ہوئے دیکھ کر فرمایا : { اسے کھول دے یہ بھی منہ میں داخل ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5754:ضعیف) مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” عرب کا محاورہ بھی یہی ہے کہ جب بچے کے داڑھی نکلتی ہے تو وہ کہتے ہیں «طَلَعَ وَجْہُہُ» “ ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ کلام عرب میں داڑھی منہ کے حکم میں ہے اور لفظ «وَجْہُہُ» میں داخل ہے ۔ داڑھی گھنی اور بھری ہوئی ہو تو اس کا خلال کرنا بھی مستحب ہے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے وضو کا ذکر کرتے ہوئے راوی کہتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے منہ دھوتے وقت تین دفعہ داڑھی کا خلال کیا ۔ پھر فرمایا ” جس طرح تم نے مجھے کرتے دیکھا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے “ ۱؎ (سنن ترمذی:31،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس روایت کو امام بخاری اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہم حسن بتاتے ہیں ۔ ابوداؤد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے وقت ایک چلو پانی لے کر اپنی تھوڑی تلے ڈال کر اپنی داڑھی مبارک کا خلال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ { مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم فرمایا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:145،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” داڑھی کا خلال کرنا سیدنا عمار ، سیدہ عائشہ ، سیدہ ام سلمہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، اور اس کے ترک کی رخصت ابن عمر ، حسن بن علی رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت سے مروی ہے “ ۔ صحاح وغیرہ میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے بیٹھتے کلی کرتے اور ناک میں پانی دیتے } ۔ ائمہ کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دونوں وضو اور غسل میں میں واجب ہیں یا مستحب ؟ امام احمد بن حنبل کا مذہب تو وجوب کا ہے اور امام شافعی اور امام مالک مستحب کہتے ہیں ان کی دلیل سنن کی وہ صحیح حدیث ہے جس میں جلدی جلدی نماز پڑھنے والے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ { وضو کر جس طرح اللہ نے تجھے حکم دیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:857،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام حنیفہ رحمۃ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ غسل میں واجب اور وضو میں نہیں ، ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ناک میں پانی دینا تو واجب اور کلی کرنا مستحب ، کیونکہ بخاری و مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { جو وضو کرے وہ ناک میں پانی ڈالے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:161) اور روایت میں ہے { تم میں سے جو وضو کرے وہ اپنے دونوں نتھنوں میں پانی ڈالے اور اچھی طرح وضو کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:162) مسند احمد اور بخاری میں ہے { سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وضو کرنے بیٹھے تو منہ دھویا ایک چلو پانی کا لے کر کلی کی اور ناک کو صاف کیا پھر ایک چلو لے کر داہنا ہاتھ دھویا پھر ایک چلو لے کر اسی سے بایاں ہاتھ دھویا ۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا ۔ پھر پانی کا ایک چلو لے کر اپنے داہنے پاؤں پر ڈال کر اسے دھویا پھر ایک چلو سے بایاں پاؤں دھویا ۔ پھر فرمایا میں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:140) «إِلَی الْمَرَافِقِ» سے مراد «مَـعَ الْمَرَافِقِ» ہے ، جیسے فرمان ہے آیت «وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ ۭ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا» ۱؎ (4-النساء:2) یعنی ’ یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں سمیت نہ کھا جایا کرو یہ بڑا ہی گناہ ہے ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک نہیں ، بلکہ کہنیوں سمیت دھونا چاہیئے ۔ دارقطنی وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہوئے اپنی کہنیوں پر پانی بہاتے تھے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2067:صحیح) لیکن اس کے دو راویوں میں کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» وضو کرنے والے کیلئے مستحب ہے کہ کہنیوں سے آگے اپنے شانے کو بھی وضو میں دھوئے کیونکہ بخاری مسلم میں حدیث ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت وضو کے نشانوں کی وجہ سے قیامت کے دن چمکتے ہوئے اعضاؤں سے آئے گی پس تم میں سے جس سے وہ ہو سکے وہ اپنی چمک کو دور تک لے جائے} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:136) صحیح مسلم میں ہے { مومن کو وہاں تک زیور پہنائے جائیں گے جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:250) «بِرُءُوسِکُمْ» میں جواب ہے اس کا الحاق یعنی ملا دینے کیلئے ہونا تو زیادہ غالب ہے اور تبعیض یعنی کچھ حصے کیلئے ہونا تامل طلب ہے ۔ بعض اصولی حضرات فرماتے ہیں چونکہ آیت میں اجمال ہے اس لیے سنت نے جو اس کی تفصیل کی ہے وہی معتبر ہے اور اسی کی طرف لوٹنا پڑے گا ۔ عبداللہ بن زید بن عاصم صحابی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا ” آپ رضی اللہ عنہ وضو کر کے ہمیں بتلائیے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو دفعہ دھوئے ، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی دیا ، تین ہی دفعہ اپنا منہ دھویا ، پھر کہنیوں سمیت اپنے دونوں ہاتھ دو مرتبہ دھوئے ، پھر دونوں ہاتھ سے سر کا مسح کیا سر کے ابتدائی حصے سے گدی تک لے گئے ، پھر وہاں سے یہیں تک واپس لائے ، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:185) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ اسی طرح منقول ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:49،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:121،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیثیں دلیل ہیں اس پر کہ پورے سر کا مسح فرض ہے ۔ یہی مذہب امام مالک رحمۃ اللہ اور امام احمد رحمۃ اللہ کا ہے اور یہی مذہب ان تمام حضرات کا ہے جو آیت کو مجمل مانتے ہیں اور حدیث کو اس کی وضاحت جانتے ہیں ۔ حنیفوں کا خیال ہے کہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے جو سر کا ابتدائی حصہ ہے اور ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ فرض صرف اتنا ہے جتنے پر مسح کا اطلاق ہو جائے ، اس کی کوئی حد نہیں ۔ سر کے چند بالوں پر بھی مسح ہو گیا تو فرضیت پوری ہو گئی ۔ ان دونوں جماعتوں کی دلیل مغیرہ بن شعبہ والی حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے رہ گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر چکے تو مجھ سے پانی طلب کیا میں لوٹا لے آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پہنچے دھوئے پھر منہ دھویا پھر کلائیوں پر سے کپڑا ہٹایا اور پیشانی سے ملے ہوئے بالوں اور پگڑی پر مسح کیا اور دونوں جرابوں پر بھی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:274) اس کا جواب امام احمد رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھی یہ دیتے ہیں کہ سر کے ابتدائی حصہ پر مسح کر کے باقی پگڑی پر پورا کر لیا اور اس کی بہت سی مثالیں احادیث میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صافے پر اور جرابوں پر برابر مسح کیا کرتے تھے ، پس یہی اولیٰ ہے اور اس میں ہرگز اس بات پر کوئی دلالت نہیں کہ سر کے بعض حصے پر یا صرف پیشانی کے بالوں پر ہی مسح کر لے اور اس کی تکمیل پگڑی پر نہ ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ سر کا مسح بھی تین بار ہو یا ایک ہی بار ؟ امام شافعی رحمۃ اللہ کا مشہور مذہب اول ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ اور ان کے متبعین کا دوم ۔ دلائل یہ ہیں : { سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وضو کرنے بیٹھتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالتے ہیں ، انہیں دھو کر پھر کلی کرتے ہیں اور ناک میں پانی دیتے ہیں ، پھر تین مرتبہ منہ دھوتے ہیں ، پھر تین تین بار دونوں ہاتھو کہنیوں سمیت دھوتے ہیں ، پہلے دایاں پھر بایاں ۔ پھر اپنے سر کا مسح کرتے ہیں پھر دونوں پیر تین تین بار دھوتے ہیں پہلے داہنا پھر بایاں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا “ اور وضو کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:159) سنن ابی داؤد میں اسی روایت میں سر کے مسح کرنے کے ساتھ ہی یہ لفظ بھی ہیں کہ { سر کا مسح ایک مرتبہ کیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:108،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ، ۱؎ (سنن ابوداود:111،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور جن لوگوں نے سر کے مسح کو بھی تین بار کہا ہے انہوں نے حدیث سے دلیل لی ہے ۔ جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار اعضاء وضو کو دھویا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:230) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے وضو کیا پھر اسی طرح روایت ہے اور اس میں کلی کرنی اور ناک میں پانی دینے کا ذکر نہیں اور اس میں ہے کہ پھر آپ نے تین مرتبہ سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ اپنے دونوں پیر دھوئے ۔ پھر فرمایا { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا اور آپ نے فرمایا جو ایسا وضو کرے اسے کافی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:107،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جو حدیثیں صحاح میں مروی ہیں ان سے تو سر کا مسح ایک بار ہی ثابت ہوتا ہے ۔ «أَرْجُلَکُمْ» لام کی زبر سے عطف ہے جو «وُجُوہِکُمْ وَأَیْدِیکُم» پر ماتحت ہے دھونے کے حکم کے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یونہی پڑھتے تھے اور یہی فرماتے تھے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:55/10) سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ ، عطاء ، عکرمہ ، حسن ، مجاہد ، ابراہیم ، ضحاک ، سدی ، مقاتل بن حیان ، زہری ، ابراہیم تیمی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:54/10) اور یہی قرأت ہے ، اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ پاؤں دھونے چاہئیں ، یہی سلف کا فرمان ہے اور یہیں سے جمہور نے وضو کی ترتیب کے وجوب پر استدلال کیا ہے ۔ صرف ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اس کے خلاف ہیں ، وہ وضو میں ترتیب کو شرط نہیں جانتے ۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص پہلے پیروں کو دھوئے پھر سر کا مسح کرے پھر ہاتھ دھوئے پھر منہ دھوئے جب بھی جائز ہے اس لیے کہ آیت نے ان اعضاء کے دھونے کا حکم دیا ہے ۔ واؤ کی دلالت ترتیب پر نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب جمہور نے کئی ایک دیئے ہیں ، ایک تو یہ کہ ” ف “ ترتیب پر دلالت کرتی ہے ، آیت کے الفاظ میں نماز پڑھنے والے کو منہ دھونے کا حکم لفظ «فَاغْسِلُوا» سے ہوتا ہے ۔ تو کم از کم منہ کا اول اول دھونا تو لفظوں سے ثابت ہوگیا اب اس کے بعد کے اعضاء میں ترتیب اجماع سے ثابت ہے جس میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔ پھر جبکہ ” ف “ جو تعقیب کیلئے ہے اور جو ترتیب کی مقتضی ہے ایک پر داخل ہو چکی تو اس ایک کی ترتیب مانتے ہوئے دوسری کی ترتیب کا انکار کوئی نہیں کرتا بلکہ تو سب کی ترتیب کے قائل ہیں یا کسی ایک کی بھی ترتیب کے قائل نہیں ۔ پس یہ آیت ان پر یقیناً حجت ہے جو سرے سے ترتیب کے منکر ہیں ، دوسرا جواب یہ ہے کہ واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتا اسے بھی ہم تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ ترتیب پر دلالت کرتا ہے جیسے کہ نحویوں کی ایک جماعت کا اور بعض فقہاء کا مذہب ہے پھر یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ بالفرض لغتاً اس کی دلالت پر ترتیب پر نہ بھی ہو تاہم شرعاً تو جن چیزوں میں ترتیب ہو سکتی ہے ان میں اس کی دلالت ترتیب پر ہوتی ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کرکے باب صفا سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت «اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَایِٕرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِـرٌ عَلِــیْمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:158) کی تلاوت کر رہے تھے اور فرمایا { میں اسی سے شروع کروں گا جسے اللہ نے پہلے بیان فرمایا } ، چنانچہ صفا سے سعی شروع کی } ۱؎ (صحیح مسلم:1218) ، نسائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم دینا بھی مروی ہے کہ { اس سے شروع کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:2965،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی اسناد بھی صحیح ہے اور اس میں امر ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ جس کا ذکر پہلے ہو اسے پہلے کرنا اور اس کے بعد اسے جس کا ذکر بعد میں ہو کرنا واجب ہے ۔ پس صاف ثابت ہو گیا کہ ایسے مواقع پر شرعاً ترتیب مراد ہوتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تیسری جماعت جواباً کہتی ہے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونے کے حکم اور پیروں کو دھونے کے حکم کے درمیان سر کے مسح کے حکم کو بیان کرنا اس امر کی صاف دلیل ہے کہ مراد ترتیب کو باقی رکھنا ہے ، ورنہ نظم کلام کو یوں الٹ پلٹ نہ کیا جاتا ۔ ایک جواب اس کا یہ بھی ہے کہ ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھو کر وضو کیا پھر فرمایا یہ وضو ہے کہ جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نے نماز کو قبول نہیں کرتا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:419،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اب دو صورتیں ہیں یا تو اس وضو میں ترتیب تھی یا نہ تھی ؟ اگر کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وضو مرتب تھا یعنی باقاعدہ ایک کے پیچھے ایک عضو دھویا تھا تو معلوم ہوا کہ جس وضو میں تقدیم تاخیر ہو اور صحیح طور پر ترتیب نہ ہو وہ نماز نامقبول لہٰذا ترتیب واجب و فرض اور اگر یہ مان لیا جائے کہ اس وضو میں ترتیب نہ تھی بلکہ بے ترتیب تھا ، پیر دھو لیے پھر کلی کر لی پھر مسح کر لیا پھر منہ دھو لیا وغیرہ تو عدم ترتیب واجب ہو جائے گی حالانکہ اس کا قائل امت میں سے ایک بھی نہیں پس ثابت ہو گیا کہ وضو میں ترتیب فرض ہے ۔ آیت کے اس جملے کی ایک قرأت اور بھی ہے یعنی «وَاَرْجُـلِـکُمْ» لام کے زیر سے اور اسی سے شیعہ نے اپنے اس قول کی دلیل لی ہے کہ پیروں پر مسح کرنا واجب ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس کا عطف سر کے مسح کرنے پر ہے ۔ بعض سلف سے بھی کچھ ایسے اقوال مروی ہیں جن سے مسح کے قول کا وہم پڑتا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ہے کہ موسیٰ بن انس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ حجاج نے اہواز میں خطبہ دیتے ہوئے طہارت اور وضو کے احکام میں کہا کہ منہ ہاتھ دھوؤ اور سر کا مسح کرو اور پیروں کو دھویا کرو عموماً پیروں پر ہی گندگی لگتی ہے ۔ پس تلوؤں کو اور پیروں کی پشت کو اور ایڑی کو خوب اچھی طرح دھویا کرو ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ اللہ سچا ہے اور حجاج جھوٹا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہےآیت «وَامْسَحُوا بِرُءُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ» (المائدہ:6) اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ پیروں کا جب مسح کرتے انہیں بالکل بھگو لیا کرتے ، آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں پیروں پر مسح کرنے کا حکم ہے ، ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پیروں کا دھونا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وضو میں دو چیزوں کا دھونا ہے اور دو پر مسح کرنا ۔ قتادہ رحمۃ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت میں پیروں پر مسح کرنے کا بیان ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ ، علقمہ ، ابو جعفر ، محمد بن علی رحمۃ اللہ علیہم اور ایک روایت میں حسن اور جابر بن زید رحمۃ اللہ علیہم اور ایک روایت میں مجاہد رحمۃ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ اپنے پیروں پر مسح کر لیا کرتے تھے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل کی معرفت مسح کا حکم نازل ہوا ہے ، آپ رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ جن چیزوں کے دھونے کا حکم تھا ان پر تو تیمم کے وقت مسح کا حکم رہا اور جن چیزوں پر مسح کا حکم تھا تیمم کے وقت انہیں چھوڑ دیا گیا “ ۔ عامر رحمۃ اللہ سے کسی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں جبرائیل علیہ السلام پیروں کے دھونے کا حکم لائے ہیں آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” جبرائیل علیہ السلام مسح کے حکم کے ساتھ نازل ہوئے تھے “ ۔ پس یہ سب آثار بالکل غریب ہیں اور محمول ہیں اس امر پر کہ مراد مسح سے ان بزرگوں کی ہلکا دھونا ہے ، کیونکہ سنت سے صاف ثابت ہے کہ پیروں کا دھونا واجب ہے ۔ یاد رہے کہ زیر کی قرأت یا تو مجاورت اور تناسب کلام کی وجہ سے ہے جیسے عرب کا کلام «حُجْرُ ضَبِّ خربٍ» میں اور اللہ کے کلام آیت «عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ» ۱؎ (76-الإنسان:21) میں لغت میں عرب میں پاس ہونے کی وجہ سے دونوں لفظوں کو ایک ہی اعراب دے دینا یہ اکثر پایا گیا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کی ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب پیروں پر جرابیں ہوں بعض کہتے ہیں مراد مسح سے ہلکا دھو لینا ہے جیسے کہ بعض روایتوں میں سنت سے ثابت ہے ۔ الغرض پیروں کا دھونا فرض ہے جس کے بغیر وضو نہ ہو گا ۔ آیت بھی یہی ہے اور احادیث میں بھی یہی ہے جیسے کہ اب ہم انہیں وارد کریں گے ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ بیہقی میں ہے { سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز کے بعد بیٹھک میں بیٹھے رہے پھر پانی منگوایا اور ایک چلو سے منہ کا ، دونوں ہاتھوں سر کا اور دونوں پیروں کا مسح کیا اور کھڑے ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا پھر فرمانے لگے کہ { لوگ کھڑے کھڑے پانی پینے کو مکروہ کہتے ہیں اور میں نے جو کیا یہی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور فرمایا یہ وضو ہے اس کا جو بے وضو نہ ہوا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5615) شعیوں میں سے جن لوگوں نے پیروں کو مسح اسی طرح قرار دیا جس طرح جرابوں پر مسح کرتے ہیں ان لوگوں نے یقیناً غلطی کی اور لوگوں کو گمراہی میں ڈالا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی خطا کار ہیں جو مسح اور دھونا دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور جن لوگوں نے امام ابن جریر رحمہ اللہ کی نسبت یہ خیال کیا ہے کہ انہوں نے احادیث کی بناء پر پیروں کے دھونے کو اور آیت قرآنی کی بنا پر پیروں کے مسح کو فرض قرار دیا ہے ۔ ان کی تحقیق بھی صحیح نہیں ، تفسیر ابن جریر ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ پیروں کو رگڑنا واجب ہے اور اعضاء میں یہ واجب نہیں کیونکہ پیر زمین کی مٹی وغیرہ سے رگڑتے رہتے ہیں تو ان کو دھونا ضروری ہے تاکہ جو کچھ لگا ہو ہٹ جائے لیکن اس رگڑنے کیلئے مسح کا لفظ لائے ہیں اور اسی سے بعض لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مسح اور غسل جمع کر دیا ہے حالانکہ دراصل اس کے کچھ معنی ہی نہیں ہوتے مسح تو غسل میں داخل ہے چاہے مقدم ہو چاہے مؤخر ہو ۔ پس حقیقتاً امام صاحب کا ارادہ یہی ہے جو میں نے ذکر کیا اور اس کو نہ سمجھ کر اکثر فقہاء نے اسے مشکل جان لیا ، میں نے مکرر غور و فکر کیا تو مجھ پر صاف طور سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امام صاحب دونوں قرأتوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں پس زیر کی قرأت یعنی مسح کو تو وہ محمول کرتے ہیں «ذَلِک» پر یعنی اچھی طرح مل رگڑ کر صاف کرنے پر اور زبر کی قرأت کو غسل پر یعنی دھونے پر دلیل ہے ہی پس وہ دھونے اور ملنے دونوں کو واجب کہتے ہیں تاکہ زیر اور زبر کی دونوں قرأتوں پر ایک ساتھ ہو جائے ۔ اب ان احادیث کو سنئے جن میں پیروں کے دھونے کا اور پیروں کے دھونے کے ضروری ہونے کا ذکر ہے امیرالمؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، امیر المؤمنین علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، معاویہ عبداللہ بن زید عاصم مقداد بن معدی کرب رضی اللہ عنہم کی روایات پہلے بیان ہو چکی ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے پیروں کو دھویا } ، ایک بار یا دو بار یا تین بار ، عمرو بن شعیب کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے دونوں پیر دھوئے پھر فرمایا یہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:419،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بخاری و مسلم میں ہے کہ { ایک مرتبہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ہم جلدی جلدی وضو کر رہے تھے کیونکہ عصر کی نماز کا وقت کافی دیر سے ہو چکا تھا ہم نے جلدی جلدی اپنے پیروں پر چھوا چھوئی شروع کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلند آواز سے فرمایا : { وضو کو کامل اور پورا کرو ایڑیوں کو خرابی سے آگ کے لگنے سے } } ۱؎ (صحیح بخاری:96) ایک اور حدیث میں ہے { ویل ہے ایڑیوں کیلئے اور تلوں کیلئے آگ سے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/4:صحیح) اور روایت میں ہے { ٹخنوں کو ویل ہے آگ سے } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:454،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ایک شخص کے پیر میں ایک درہم کے برابر جگہ بے دھلی دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { خرابی ہے ایڑیوں کیلئے آگ سے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:454،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ { کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھ کر جن کی ایڑیوں پر اچھی طرح پانی نہیں پہنچا تھا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان ایڑیوں کو آگ سے خرابی ہوگی } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11522:صحیح) مسند احمد میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ وارد ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:426/3:صحیح بالشواہد) ابن جریر میں دو مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان الفاظ کو کہنا وارد ہے راوی ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر تو مسجد میں ایک بھی شریف و وضیع ایسا نہ رہا جو اپنی ایڑیوں کو باربار دھو کر نہ دیکھتا ہو ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11528:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جس کی ایڑی یا ٹخنے میں بقدر نیم درہم کے چمڑی خشک رہ گئی تھی تو یہی فرمایا } پھر تو یہ حالت تھی کہ اگر ذرا سی جگہ پیر کی کسی خشک رہ جاتی تو وہ پورا وضو پھر سے کرتا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11529:ضعیف) پس ان احادیث سے کھلم کھلا ظاہر ہے کہ پیرو کا دھونا فرض ہے ، اگر ان کا مسح فرض ہوتا تو ذرا سی جگہ کے خشک رہ جانے پر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وعید سے اور وہ بھی جہنم کی آگ کی وعید سے نہ ڈراتے ، اس لیے کہ مسح میں ذرا ذرا اسی جگہ پر ہاتھ کا پہنچانا داخل ہی نہیں ۔ بلکہ پھر تو پیر کے مسح کی وہی صورت ہوتی ہے جو پیر کے اوپر جراب ہونے کی صورت میں مسح کی صورت ہے ۔ یہی چیز امام ابن جریر رحمہ اللہ نے شیعوں کے مقابلہ میں پیش کی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اس کا پیر کسی جگہ سے ناخن کے برابر دھلا نہیں خشک رہ گیا تو آپ نے فرمایا { لوٹ جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:243) بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، ۱؎ (سنن ابن ماجہ:665،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے کہ { ایک نمازی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دیکھا کہ اس کے پیر میں بقدر درہم کے جگہ خشک رہ گئی ہے تو اسے وضو لوٹانے کا حکم کیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:175،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا وضو کا طریقہ جو مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں کے درمیان خلال بھی کیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:230) سنن میں ہے { سیدنا صبرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کی نسبت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وضو کامل اور اچھا کرو انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی اچھی طرح دھو ہاں روزے کی حالت میں ہو تو اور بات ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2366،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند و مسلم وغیرہ میں ہے { عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وضو کی بابت خبر دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو شخص وضو کا پانی لے کر کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی دیتا ہے اس کے منہ سے نتھنوں سے پانی کے ساتھ ہی خطائیں جھڑ جاتی ہیں جبکہ وہ ناک جھاڑتا ہے پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جیسا کہ اللہ کا حکم ہے تو اس کے منہ کی خطائیں داڑھی اور داڑھی کے بالوں سے پانی کے گرنے کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے کہنیوں سمیت تو اس کے ہاتھوں کو گناہ اس کی پوریوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں ، پھر وہ مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی خطائیں اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر جب وہ اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت حکم الٰہی کے مطابق دھوتا ہے تو انگلیوں سے پانی ٹپکنے کے ساتھ ہی اس کے پیروں کے گناہ بھی دور ہو جاتے ہیں ، پھر وہ کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کے لائق جو حمد و ثناء ہے اسے بیان کر کے دو رکعت نماز جب ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ تولد ہوا ہو } } ۔ یہ سن کر ابوامامہ رحمہ اللہ نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہا خوب غور کیجئے کہ آپ رضی اللہ عنہ کیا فرما رہے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح سنا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ ایک ہی مقام میں انسان حاصل کرلیتا ہے ؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوامامہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میری ہڈیاں ضعیف ہو چکی ہیں ، میری موت قریب آ پہنچی ہے ، مجھے کیا فائدہ جو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں ، ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں ، تین دفعہ نہیں ، میں نے تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سات بار بلکہ اس سے بھی زیادہ سنا ہے ، اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:112/4:صحیح) صحیح مسلم کی دوسری سند والی حدیث میں ہے { پھر وہ اپنے دونوں پاؤں کو دھوتا ہے جیسا کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:832) پس صاف ثابت ہوا کہ قرآن حکیم کا حکم پیروں کے دھونے کا ہے ۔ ابواسحاق سبیعی نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فی الجنہ سے بواسطہ حضرت حارث روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوؤ جیسے کہ تم حکم کئے گئے ہو } ۔ ۱؎ (بیہقی:71/1:ضعیف) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں قدم جوتی میں ہی بھگو لیے } ، اس سے مراد جوتیوں میں ہی ہلکا دھونا ہے اور چپل جوتی پیر میں ہوتے ہوئے پیر دھل سکتا ہے ۔ غرض یہ حدیث بھی دھونے کی دلیل ہے البتہ اس سے ان وسواسی اور وہمی لوگوں کی تردید ہے جو حد سے گزر جاتے ہیں ۔ اسی طرح وہ دوسری حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کے کوڑا ڈالنے کی جگہ پر پیشاب کیا پھر پانی منگوا کر وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کر لیا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11531) لیکن یہی حدیث دوسری سندوں سے مروی ہے اور ان میں کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جرابوں پر مسح کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:224) اور میں مطابقت کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جرابیں پیروں میں تھیں اور ان پر نعلین تھے اور ان دونوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسح کرلیا ۔ یہی مطلب اس حدیث کا بھی ہے ، مسند احمد میں اوس ابو اوس سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دیکھتے ہوئے وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا اور نماز کیلئے کھڑے ہو گئے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:160،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوڑے پر پیشاب کرنا پھر وضو کرنا اور اس میں نعلین اور دونوں قدموں پر مسح کرنا مذکور ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:160،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ابن جریر رحمۃ اللہ اسے بیان کرتے ہیں ، پھر فرمایا ہے کہ ” یہ محمول اس پر ہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا وضو تھا “ ۔ [ یا یہ محمول ہے اس پر کہ نعلین جرابوں کے اوپر تھے ۔ مترجم ] بھلا کوئی مسلمان یہ کیسے قبول کر سکتا ہے کہ اللہ کے فریضے میں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تعارض ہو اللہ کچھ فرمائے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور ہی کریں ؟ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ کے فعل سے وضو میں پیروں کے دھونے کی فرضیت ثابت ہے اور آیت کا صحیح مطلب بھی یہ ہے جس کے کانوں تک یہ دلیلیں پہنچ جائیں اس پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ۔ چونکہ زیر کی قرأت سے پیروں کا دھونا اور زیر کی قرأت کا بھی اسی پر محمول ہونا فرضیت کا قطعی ثبوت ہے اس سے بعض سلف تو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اس آیت سے جرابوں کا مسح ہی منسوخ ہے ، گو ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی مروی ہے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں بلکہ خود آپ رضی اللہ عنہ سے صحت کے ساتھ اس کے خلاف ثابت ہے اور جن کا بھی یہ قول ہے ان کا یہ خیال صحیح نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ مسند احمد میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ سورۃ المائدہ کے نازل ہونے کے بعد ہی میں مسلمان ہوا اور اپنے اسلام کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جرابوں پر مسح کرتے دیکھا ۔ ۱؎ (مسند احمد:363/4:صحیح) بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کرتے ہوئے اپنی جرابوں پر مسح کیا ان سے پوچھا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ ایسا کرتے ہیں ؟ تو فرمایا { یہی کرتے ہوئے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے } ۔ راوی حدیث ابراہیم فرماتے ہیں لوگوں کو یہ حدیث بہت اچھی لگتی تھی اس لیے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا سورۃ المائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:387) احکام کی بڑی بڑی کتابوں میں تواتر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ اب مسح کی مدت ہے یا نہیں ؟ اس کے ذکر کی یہ جگہ نہیں احکام کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے ، رافضیوں نے اس میں بھی گمراہی اختیار کی ہے ، اور اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں صرف جہالت اور ضلالت ہے ۔ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح مسلم میں یہ ثابت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:376) لیکن روافض اسے نہیں مانتے ، جیسے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہی روایت سے بخاری مسلم میں نکاح متعہ کی ممانعت ثابت ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4616) لیکن تاہم شیعہ اسے مباح قرار دیتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح یہ آیہ کریمہ دونوں پیروں کے دھونے پر صاف دلالت کرتی ہے اور یہی امر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متواتر احادیث سے ثابت ہے لیکن شیعہ جماعت اس کی بھی مخالف ہے ۔ فی واقع ان مسائل میں ان کے ہاتھ دلیل سے بالکل خالی ہیں ۔ «ولِلہِ الْحَمْدُ» ۔ اسی طرح ان لوگوں نے آیت کا اور سلف صالحین کا «کَعْبَیْن» کے بارے میں بھی الٹ مفہوم لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ قدم کی پشت ابھار «کَعْبَیْن» ہے ۔ پس ان کے نزدیک ہر قدم میں ایک ہی کعب یعنی ٹخنہ ہے اور جمہور کے نزدیک ٹخنے کی وہ ہڈیاں جو پنڈلی اور قدم کے درمیان ابھری ہوئی ہیں اور وہ «کَعْبَیْن» ہیں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ ” جن «کَعْبَیْن» کا یہاں ذکر ہے یہ ٹخنے کی دو ہڈیاں ہیں جو ادھر ادھر قدرے ظاہر دونوں طرف ہیں “ ۔ ایک ہی قدم میں «کَعْبَیْن» ہیں لوگوں کے عرض میں بھی یہی ہے اور حدیث کی دلالت بھی اسی پر ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اپنے داہنے پاؤں کو «کَعْبَیْن» سمیت دھویا پھر بائیں کو بھی اسی طرح } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:159) بخاری میں تعلیقاً بصیغہ جزم اور صحیح ابن خزیمہ میں اور سنن ابی داؤد میں ہے کہ { ہماری طرف متوجہ ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی صفیں ٹھیک ٹھیک درست کر لو } تین بار یہ فرما کر فرمایا : { قسم اللہ کی یا تو تم اپنی صفوں کو پوری طرح درست کرو گے یا اللہ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا } ۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ راوی حدیث فرماتے ہیں پھر تو یہ ہو گیا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ اور گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملا لیا کرتا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:725) اس روایت سے صاف معلوم ہو گیا کہ کعبین اس ہڈی کا نام نہیں جو قدم کی پشت کی طرف ہے کیونکہ اس کا ملانا دو پاس پاس کے شخصوں میں ممکن نہیں بلکہ وہی دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو پنڈلی کے خاتمے پر ہیں اور یہی مذہب اہلسنت کا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں یحییٰ بن حارث تیمی سے منقول ہے کہ زید کے جو ساتھی شیعہ قتل کئے گئے تھے انہیں میں نے دیکھا تو ان کا ٹخنہ قدم کی پشت پر پایا انہیں قدرتی سزا تھی جو ان کی موت کے بعد ظاہر کی گئی اور مخالفت حق اور کتمان حق کا بدلہ دیا گیا ۔ اس کے بعد تیمم کی صورتیں اور تیمم کا طریقہ بیان ہوا ہے اس کی پوری تفسیر سورۃ نساء میں گزر چکی ہے لہٰذا یہاں بیان نہیں کی جاتی ۔ آیت تیمم کا شان نزول بھی وہیں بیان کر دیا گیا ہے ۔ لیکن امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ نے اس آیت کے متعلق خاصتًا ایک حدیث وارد کی ہے اسے سن لیجئے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { میرے گلے کا ہار بیداء میں گرگیا ہم مدینہ میں داخل ہونے والے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری روکی اور میری گود میں سر رکھ کر سوگئے اتنے میں میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھ پر بگڑنے لگے کہ ” تونے ہار کھو کر لوگوں کو روک دیا “ اور مجھے کچوکے مارنے لگے ۔ جس سے مجھے تکلیف ہوئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل اندازی نہ ہو ، اس خیال سے میں ہلی جلی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جاگے اور صبح کی نماز کا وقت ہو گیا اور پانی کی تلاش کی گئی تو پانی نہ ملا ، اس پر یہ پوری آیت نازل ہوئی ۔ اسید بن حفیر کہنے لگے اے آل ابوبکر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے تمہیں بابرکت بنا دیا ہے تم ان کیلئے سرتاپا برکت ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4608) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ میں تم پر حرج ڈالنا نہیں چاہتا اسی لیے اپنے دین کو سہل آسان اور ہلکا کر دیا ہے ۔ بوجھل سخت اور مشکل نہیں ‘ ۔ حکم تو اس کا یہ تھا کہ پانی سے وضو کرو لیکن جب میسر نہ ہو یا بیماری ہو تو تمہیں تیمم کرنے کی رخصت عطا فرماتا ہے ، باقی احکام احکام کی کتابوں میں ملاحظہ ہوں ۔ بلکہ اللہ کی چاہت یہ ہے کہ تمہیں پاک صاف کر دے اور تمہیں پوری پوری نعمتیں عطا فرمائے تاکہ تم اس کی رحمتوں پر اس کی شکر گزاری کرو اس کی توسیع احکام اور رأفت و رحمت آسانی اور رخصت پر اس کا احسان مانو ۔ وضو کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا تعلیم فرمائی ہے جو گویا اس آیت کے ماتحت ہے ۔ مسند ، سنن اور صحیح مسلم میں عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { ہم باری باری اونٹوں کو چرایا کرتے تھے میں اپنی باری والی رات عشاء کے وقت چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں سے کچھ فرما رہے ہیں میں بھی پہنچ گیا اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ { جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے دلی توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرے اس کیلئے جنت واجب ہے } ۔ میں نے کہا واہ واہ یہ بہت ہی اچھی بات ہے ۔ میری یہ بات سن کر ایک صاحب نے جو میرے آگے ہی بیٹھے تھے فرمایا اس سے پہلے جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے جو غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے آپ رضی اللہ عنہ مجھ سے فرمانے لگے تم ابھی آئے ہو ، تمہارے آنے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ { جو شخص عمدگی اور اچھائی سے وضو کرے پھر کہے «اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ» اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس میں سے چاہے داخل ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:234) ایک اور روایت میں ہے کہ { جب ایمان و اسلام والا وضو کرنے بیٹھتا ہے اس کے منہ دھوتے ہوئے اس کی آنکھوں کی تمام خطائیں پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ جھڑ جاتی ہے ہیں اسی طرح ہاتھوں کے دھونے کے وقت ہاتھوں کی تمام خطائیں اور اسی طرح پیروں کے دھونے کے وقت پیروں کی تمام خطائیں دھل جاتی ہیں وہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:244) ابن جریر میں ہے { جو شخص وضو کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ یا بازوؤں کو دھوتا ہے تو ان سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ، منہ کو دھوتے وقت منہ کے گناہ الگ ہو جاتے ہیں ، سر کا مسح سر کے گناہ جھاڑ دیتا ہے پیر کا دھونا ان کے گناہ دھو دیتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11549:صحیح المتن) دوسری سند میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:235/4:صحیح) ابن جریر میں ہے { جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے اس کے کانوں سے آنکوں سے ہاتھوں سے پاؤں سے سب گناہ الگ ہو جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:252/5:حسن) صحیح مسلم شریف میں ہے { وضو آدھا ایمان ہے ، «الْحَمْدُ لِلہِ» کہنے سے نیکی کا پلڑا بھر جاتا ہے ۔ قرآن یا تو تیری موافقت میں دلیل ہے یا تیرے خلاف دلیل ہے ، ہر شخص صبح ہی صبح اپنے نفس کی فروخت کرتا ہے پس یا تو اپنے تئیں آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کر لیتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:223) اور حدیث میں ہے { مال حرام کا صدقہ اللہ قبول نہیں فرماتا اور بے وضو کی نماز بھی غیر مقبول ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:224) یہ روایت ابوداؤد ، طیالسی ، مسند احمد ، ابوداؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:59،قال الشیخ الألبانی:صحیح)