إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔
نزول انبیاء، تعداد انبیاء، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا ”اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نہیں مانتے کہ موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو ۔ “ اس پر یہ آیتیں اتریں ، محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب آیت «یَسْأَلُکَ أَہْلُ الْکِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَیٰ أَکْبَرَ مِن ذٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللہَ جَہْرَۃً فَأَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْہُمُ الْبَیِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذٰلِکَ ۚ وَآتَیْنَا مُوسَیٰ سُلْطَانًا مٰبِینًا وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطٰورَ بِمِیثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَہُمْ لَا تَعْدُوا فِی السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْہُم مِّیثَاقًا غَلِیظًا فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِم بِآیَاتِ اللہِ وَقَتْلِہِمُ الْأَنبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا وَبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلَیٰ مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیمًا » ۱؎ (4-النساء:153-156) تک اتری . اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کر دیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا ، نہ موسیٰ علیہ السلام پر ، نہ عیسیٰ علیہ السلام پر ، نہ کسی اور نبی پر ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے ، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں ؟ } پس اللہ تعالیٰ نے آیت «وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ» ۱؎ (6-الأنعام:91) الخ ، نازل فرمائی . لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لیے کہ یہ آیت سورۃ الانعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے ، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں ، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ«فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَیٰ أَکْبَرَ مِن ذٰلِکَ» (4-النساء:153) موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کر دیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی ۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ، ان انبیاء علیہم السلام کے قصے سورۃ قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہو چکا ہے اور بہت سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر نہیں بھی ہوا ۔ جن انبیاء علیہم السلام کے نام قرآن کے الفاظ میں آ گئے ہیں وہ یہ ہیں ، : آدم ، ادریس ، نوح ، ہود ، صالح ، ابراہیم ، لوط ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، شعیب ، موسیٰ ، ہارون ، یونس ، داؤد ، سلیمان ، یوشع ، زکریا ، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس علیہم السلام اور ان سب کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا ۔ اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے ، اس بارے میں مشہور حدیث سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار میں نے پوچھا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا تین سو تیرہ ، بہت بڑی جماعت ۔ میں نے پھر دریافت کیا ، ”سب سے پہلے کون سے ہیں ؟ “ فرمایا ”آدم“ علیہ السلام میں نے کہا ”کیا وہ بھی رسول تھے ؟ “ فرمایا ”ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، پھر ان میں اپنی روح پھونکی ، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا “ پھر فرمایا اے ابوذر [ رضی اللہ عنہ ] چار سریانی ہیں ، آدم ، شیت ، نوح ، خنوخ علیہم السلام جن کا مشہور نام ادریس ہے ، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا ، چار عربی ہیں ، ہود ، صالح ، شعیب علیہم السلام اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اے بوذر [ رضی اللہ عنہ ] بنو اسرائیل کے پہلے نبی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور آخری عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح ابن حبان:361:ضعیف جداً) اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے ۔ حافظ ابوحاتم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے ، لیکن ان کے برخلاف امام ابوالفرج بن جوزی رحمہ اللہ اسے بالکل موضوع بتلاتے ہیں ، اور ابراہیم بن ہشام اس کے ایک راوی پر وضاع ہونے کا وہم کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے ابوامامہ سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم ابو بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:265/5:ضعیف جداً) ایک اور حدیث ابویعلیٰ میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں ، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4132:ضعیف جداً) یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں رنبری اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابو یعلیٰ کی اور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں ۔} ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4092:ضعیف جداً) اور حدیث میں ہے { میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ } ۱؎ (ابونعیم فی الحلیۃ:162/3:ضعیف جداً) یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے ، اسے بھی سن لیجئے ، { آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف فرماتے ، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا ”ہاں وہ بہتر چیز ہے ، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی“ میں نے کہا ”یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کون سے اعمال افضل ہیں ؟ “ فرمایا ”اللہ پر ایمان لانا ، اس کی راہ میں جہاد کرنا “ میں نے کہا ”یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کون سا مسلمان اعلیٰ ہے ؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں“ { میں نے پوچھا ” کون سی ہجرت افضل ہے ؟ “ فرمایا ”برائیوں کو چھوڑ دینا “ میں نے پوچھا کون سی نماز افضل ہے ؟ فرمایا ”لمبے قنوت والی “ میں نے کہا کون سا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا ”فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے “ میں نے پوچھا کون سا جہاد افضل ہے ؟ ”فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے ۔ “ میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے ؟ ”فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو ۔ “ میں نے پوچھا صدقہ کون سا افضل ہے ؟ فرمایا ”کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا ۔ “ میں نے کہا قران میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟ فرمایا ”آیت الکرسی“ پھر آپ نے فرمایا ”اے ابوذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر ، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر“ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء علیہم السلام کتنے ہیں ؟ فرمایا ” ایک لاکھ چوبیس ہزار“ میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا ”تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت “ میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں ؟ فرمایا ”آدم“ علیہ السلام میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے ؟ فرمایا ”ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا ۔ “ } { پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں ، آدم ، شیث ، خنوخ علیہم السلام اور یہی ادریس علیہ السلام ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود ، شعیب ، صالح علیہم السلام اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سب سے پہلے رسول آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری رسول محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں ؟ فرمایا ایک سو چار ، شیث علیہ السلام پر پچاس صحیفے ، خنوخ علیہ السلام پر تیس صحیفے ، ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے اور موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کا کل یہ تھا اے بادشاہ مسلط کیا ہوا اور مغروز میں نے تجھے دنیا جمع کرنے اور ملا ملا کر رکھنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لئے کہ تو مظلوم کی پکار کو سامنے سے ہٹادے اگر میرے پاس پہنچے تو میں اسے رد نہ کروں گا گو وہ مظلوم کافر ہی ہو اور ان میں مثالیں بھی تھیں یہ کہ عاقل کو لازم ہے کہ وہ اپنے اوقات کے کئی حصے کرے ایک وقت اپنے نفس کا حساب لے ایک وقت خدا کی صفت میں غور کرے ایک وقت اپنے کھانے پینے کی فکر کرے ۔ اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا ۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں ۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ! “ دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے ، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے ، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو ۔ عقلمند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہیئے ، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر ، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت ، عقلمند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہیئے ، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہیئے ، وہ بہت کم گو ہو گا ، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے ، } { میں نے پوچھا موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے ، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے ، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لیے پاگل ہو رہا ہے ، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے ، دنیا کی بے ثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے ، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے ، میں نے عرض کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگلے انبیاء علیہم السلام کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ إِنَّ ہٰذَا لَفِی الصٰحُفِ الْأُولَیٰ صُحُفِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَیٰ» ۱؎ (87-الأعلی:19-14) میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں ، یہی تیرے اعمال کی روح ہے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور بھی ، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لیے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہو گا ، میں نے پھر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید فرمایئے ، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے ، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو ، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے ، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو ، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہو گی ۔} { میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئیے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو ، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہو گی ۔ میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو ، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا ”قرابت داروں سے ملتے رہو ، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں“ میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے ۔ میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر ، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو ، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابوذر تدبیر کے مانند کوئی عقلمندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیزگاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں ۔} ۱؎ (صحیح ابن حبان:361،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:178/5-179:ضعیف و منقطع) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں ، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی ”سنو وہ بھینگا ہو گا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہو گی ، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اس کی بائیں آنکھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے ، وہ تمام زبانیں بولے گا ، اس کے ساتھ جنت کی صورت ہوگی سرسبز و شاداب اور پانی والی اور دوزخ کی صورت ہوگی سیاہ دھواں دھار۔ } ۱؎ (مسند احمد:79/3:ضعیف) ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا ۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا ۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے ، ایک شخص ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے «وَکَلَّمَ اللہُ مُوسَیٰ تَکْلِیمًا» ’ یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے ‘ اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہو گا ۔ میں نے اعمش سے، اعمش نے یحییٰ سے ، یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے ، عبدالرحمٰن نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا ہے کہ آیت «وَکَلَّمَ اللہُ مُوسَیٰ تَکْلِیمًا» ۱؎ (4-النساء:164) ۱؎ (طبرانی اوسط:8603:ضعیف) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو ، اس لیے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے ۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بد دیانتی کیسے کرو گے ؟ جہاں فرمایا ہے آیت «وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبٰہٗ» ۱؎ (7-الأعراف:143) ’ یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا ‘ مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے ۔ } ۱؎ (مجمع الزوائد:373/8:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ثابت ہو جائے تو بہت ٹھیک ہے ۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے ۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوف کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1734،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جداً) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں موسیٰ علیہ السلام کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں ، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں موسیٰ علیہ السلام سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں اسی پاک کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی ۔ ۱؎ (المعجم الاوسط:3949:ضعیف) اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں ۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کے برابر کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا ”میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا “ انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو ، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہو گی ، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی . ۱؎ (بزار:2353:ضعیف) اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں . سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے پوچھا “باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے ؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کر سکتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے ؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے ۔ یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں ۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضا مندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے فرمان کے خلاف کرنے والوں ، اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامر و نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لیے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَکْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰی» ۱؎ (20-طہ:134) ’ یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ۔ ‘ اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت«وَلَوْلَآ اَنْ تُصِیْبَہُمْ مٰصِیْبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:47) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ عذر پسند ہو ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4637) دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2760)