سورة الفلق - آیت 1

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بیماری، وبا، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے بچاؤ کی دعا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» کہتے ہیں صبح کو ، خود قرآن میں اور جگہ ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ» ۱؎ (6-الأنعام:96) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے «فَلَقِ» سے مراد مخلوق ہے ۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ، لیکن وہ حدیث منکر ہے ۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ۔ تمام مخلوق کی برائی سے جس میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی ۔ «غَاسِقٍ» سے مراد رات ہے ۔ «إِذَا وَقَبَ» سے مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے ، یعنی رات جب اندھیرا لیے ہوئے آ جائے ، ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو «غَاسِقٍ» کہتے ہیں ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:38375:ضعیف) بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ «غَاسِقٍ» ہے ، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے ۔ ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : «تَعَوَّذِی بِاَللَّہِ مِنْ شَرّ ہَذَا الْغَاسِق إِذَا وَقَبَ» ’اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ‘} ۱؎ (سنن ترمذی:3366،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اور روایت میں ہے کہ «غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ» سے یہی مراد ہے ، دونوں قولوں میں باآسانی یہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں جنہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ {جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ”ہاں“ ، تو جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی «بِسْمِ اللَّہ أَرْقِیک مِنْ کُلّ دَاء یُؤْذِیک وَمِنْ شَرّ کُلّ حَاسِد وَعَیْن اللَّہ یَشْفِیک» یعنی ”اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفاء دے“} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:972،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفاء بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بےاثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا ، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفاء عطا فرمائی ۔ مسند احمد میں ہے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادو کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گرہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گرہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا} ۳؎ ۔ (مسند احمد:367/4:صحیح بغیر ھذا سیاق) صحیح بخاری کتاب الطب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے ۔ سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے ، جب یہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئی ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ”عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا ، دو شخص آئے ایک میرے سرہانے بیٹھا ایک پائینتی کی طرف ، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا : ان کا کیا حال ہے ؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا : کس نے جادو کیا ہے ؟ کہا لبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے ، کہا کس چیز میں ؟ کہا سر کے بالوں اور کنگھی میں، پوچھا : دکھا کہاں ہے ؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے ، میں نے کہا بھی کہ اے اللہ کے رسول ! ان سے بدلہ لینا چاہیئے ، آپ نے فرمایا : ”الحمداللہ ، اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفاء دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5765) دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ {ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حکم سے بند کر دیا گیا} ۱؎ ، (صحیح بخاری:6064) یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی ، تفسیر ثعلبی میں سیدنا ابن عباس اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہلا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لیے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذروان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے سر کے بال جھڑنے لگے ، خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے ، گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے سیدنا علی ، سیدنا زبیر اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی ، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گرہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہو گئے ۔ ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گزر چکی ہے ، لوگوں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! ہمیں اجازت دیجئیے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا : ”نہیں ، اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا“ ۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»