لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ
قریش کے مانوس کرنے کے لئے
امن و امان کی ضمانت موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورۃ الفیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان «بسم اللہ» کی آیت کا فاصلہ ہے ، مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبدالرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا ۔ یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع کے ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا ۔ اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن و امان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن و امان سے سفر طے کر لیتا تھا اسی طرح وطن میں ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا ۔ جیسے اور جگہ قرآن کریم میں ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:67) الخ یعنی ’ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنا دیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لیے جاتے ہیں ‘ ، لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «لِإِیلَافِ» ، میں پہلا «لام» تعجب کا «لام» ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ تو گویا یوں فرمایا جا رہا ہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیئے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِی حَرَّمَہَا وَلَہُ کُلٰ شَیْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (27-النمل:91) ، یعنی ’ اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار رہوں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا انہیں چاہیئے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن و امان سے رہے گا ، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بےامنی ہے اور آخرت کا امن بھی ڈر خوف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا ۔ جیسے اور جگہ فرمایا : «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ آمِنَۃً مُطْمَئِنَّۃً یَأْتِیہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللہِ فَأَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ» * «وَلَقَدْ جَاءَہُمْ رَسُولٌ مِنْہُمْ فَکَذَّبُوہُ فَأَخَذَہُمُ الْعَذَابُ وَہُمْ ظَالِمُونَ» ۱؎ (16-النحل:112-113) یعنی ’ اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن و اطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی ناشکری کرنے کی سوجھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کر لیا ‘ ۔ ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قریشیو ! تمہیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بدامنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمہیں امن و امان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ “} ۱؎ ۔ (مسند احمد:460/6:اسناد ضعیف) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ قریش کی تفسیر ختم ہوئی ۔