أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا ؟ اللہ نے اسے بنایا۔
موت و حیات کی سرگزشت جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے منکر تھے ، انہیں پروردگار دلیلیں دیتا ہے کہ ’ تمہاری پیدائش سے تو بہت زیادہ مشکل پیدائش آسمانوں کی ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (40-غافر:57) یعنی ’ زمین و آسمان کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے زیادہ بھاری ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے آیت «أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (36-یس:81) ’ کیا جس نے زمین و آسمان پیدا کر دیا ہے ان جیسے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ ضرور وہ قادر ہے اور وہ ہی بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے ‘ ۔ آسمانوں کو اس نے بنایا یعنی بلند و بالا خوب چوڑا اور کشادہ اور بالکل برابر بنایا پھر اندھیری راتوں میں خوب چمکنے والے ستارے اس میں جڑ دیئے ، رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور دن کو روشن اور نور والا بنایا اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا یعنی پانی اور چارہ نکالا ۔ سورۃ حم سجدہ میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ زمین کی پیدائش تو آسمان سے پہلے ہے ہاں اس کی برکات کا اظہار آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوا جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ، اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے اور پہاڑوں کو اس نے خوب مضبوط گاڑ دیا ہے وہ حکمتوں والا صحیح علم والا ہے اور ساتھ ہی اپنی مخلوق پر بے حد مہربان ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا وہ ہلنے لگی پروردگار نے پہاڑوں کو پیدا کر کے زمین پر گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی فرشتوں کو اس سے سخت تر تعجب ہوا اور پوچھنے لگے : اے اللہ ! تیری مخلوق میں ان پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت چیز کوئی اور ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں لوہا ، پوچھا : اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا : آگ ، پوچھا : اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا : ہاں پانی ، پوچھا : اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا : ہوا ۔ پوچھا : پروردگار کیا تیری مخلوق میں اس سے بھاری کوئی اور چیز ہے ؟ فرمایا : ہاں ابن آدم وہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرتا ہے اس کی خبر پائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی “ } ۱؎ (مسند احمد:124/3:ضعیف) ابن جریر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ کانپنے لگی اور کہنے لگی مجھ پر تو آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہے جو اپنی گندگی مجھ پر ڈالیں گے اور میری پیٹھ پر تیری نافرمانیاں کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ گاڑ کر زمین کو ٹھہرا دیا بہت سے پہاڑ تم دیکھ رہے ہو اور بہت سے تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں ، زمین کا پہاڑوں کے بعد سکون حاصل کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اونٹ کو ذبح کرتے ہی اس کا گوشت تھرکتا رہتا ہے پھر کچھ دیر بعد ٹھہر جاتا ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہے ‘ ، یعنی زمین سے چشموں اور نہروں کا جاری کرنا ، زمین کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنا ، کھیتیاں اور درخت اگانا ، پہاڑوں کا گاڑنا تاکہ زمین سے پورا پورا فائدہ تم اٹھا سکو ، یہ سب باتیں انسانوں کے فائدے کیلئے ہیں اور ان کے جانوروں کے فائدے کے لیے پھر وہ جانور بھی انہی کے فائدے کے لیے ہیں کہ بعض کا گوشت کھاتے ہیں بعض پر سواریاں لیتے ہیں اور اپنی عمر اس دنیا میں سکھ چین سے بسر کر رہے ہیں ۔