رَّبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَٰنِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا
(اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا (١)
روح الامین علیہ السلام اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ ’ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے ، وہ رحمان ہے ، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے ، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) یعنی ’ کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کے سامنے سفارش لے جا سکے ‘ ۔ اور جگہ ہے «یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ» ۱؎ (11-ھود:105) ’ جس دن وہ آ جائے گا کوئی بھی بلا اجازت اس سے بات نہ کر سکے گا ‘ ۔ روح سے مراد یا تو کل انسانوں کی روحیں ہیں یا کل انسان ہیں یا ایک قسم کی خاص مخلوق ہے جو انسانوں کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان ، یا مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ، جبرائیل علیہ السلام کو اور جگہ بھی «روح» کہا گیا ہے ، ارشاد ہے «نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» (26-الشعراء:194،193) ’ اسے امانت دار «روح» نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ‘ ، یہاں مراد «روح» سے یقیناً جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” تمام فرشتوں سے بزرگ ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں ، یا مراد «روح» سے قرآن ہے ، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے «وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا» ۱؎ (42-الشوری:52) یعنی ’ ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری ‘ ، یہاں «روح» سے مراد قرآن ہے ۔ چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے ، تمام آسمانوں ، کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے ، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا “ ۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22/30:ضعیف) طبرانی میں حدیث ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے «سُبْحَانک حَیْثُ کُنْتَ» اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے “ } ۱؎ (طبرانی کبیر:11476،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں بھی کلام ہے ، ممکن ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہو ، اور وہ بھی بنی اسرائیل سے لیا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں «روح» سے مراد کل انسان ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا ’ صرف وہی اس دن بات کر سکے گا جسے وہ رحمن اجازت دے ‘ ۔ جیسے فرمایا «یَوْمَ یَاْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ» ۱؎ (11-ھود:105) یعنی ’ جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کر سکے گا ‘ ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے کہ { اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کر سکے گا} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:806) پھر فرمایا کہ ’ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو ‘ ، سب سے زیادہ حق بات «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» ہے ۔ پھر فرمایا کہ ’ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے ، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے ، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کر دیا ہے ، آنے والی چیز تو آ گئی ہوئی سمجھنی چاہیئے ، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا» ۱؎ (18-الکھف:49) ’ جو کیا اسے سامنے پا لیں گے ‘ اور جگہ ہے ، «یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَیِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ» ۱؎ (75-القیامۃ:13) ’ ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا ‘ ۔ اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا ، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصف ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں ، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ وہ مٹی ہو جائیں گے ، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ النباء کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلہِ وَالْمِنَّۃ وَبِہِ التَّوْفِیْقُ وَالْعِصْمَۃ»