سورة النبأ - آیت 17

إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک فیصلہ کا دن کا وقت مقرر ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جماعت در جماعت حاضری یعنی قیامت کا دن ہمارے علم میں مقرر دن ہے ، نہ وہ آگے ہو ، نہ پیچھے ٹھیک وقت پر آ جائے گا ۔ کب آئے گا اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ ‏‏‏‏«‏‏‏‏وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ» ۱؎ (11-ھود:104) ’ نہیں ڈھیل دیتے ہم انہیں لیکن وقت مقرر کے لیے ‘ ۔ اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور لوگ جماعتیں جماعتیں بن کر آئیں گے ، ہر ایک امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ الگ الگ ہو گی ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ» ۱؎ (17-الإسراء:71) ’ جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں سمیت بلائیں گے ‘ ۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” دونوں صور کے درمیان چالیس ہوں گے “ ، لوگوں نے پوچھا چالیس دن ؟ کہا ” میں نہیں کہہ سکتا “ ، پوچھا : چالیس مہینے ؟ کہا ” مجھے خبر نہیں “ ۔ پوچھا : چالیس سال ؟ کہا ” میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ، پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا اور جس طرح درخت اگتے ہیں لوگ زمین سے اگیں گے ، انسان کا تمام بدن گل سڑ جاتا ہے لیکن ایک ہڈی اور وہ کمر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسی سے قیامت کے دن مخلوق مرکب کی جائے گی “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4935) آسمان کھول دیئے جائیں گے اور اس میں فرشتوں کے اترنے کے راستے اور دورازے بن جائیں گے ، پہاڑ چلائے جائیں گے اور بالکل ریت کے ذرے بن جائیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِیَ تَمُــرٰ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ اِنَّہٗ خَبِیْرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:88) یعنی ’ تم پہاڑوں کو دیکھ رہے ہو ، جان رہے ہو وہ پختہ مضبوط اور جامد ہیں لیکن یہ بادلوں کی طرح چلنے پھرنے لگیں گے ‘ ۔ اور جگہ ہے‏‏‏‏ «وَتَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنفُوشِ» ۱؎ (101-القارعۃ:5) ’ پہاڑ مثل دھنی ہوئی اون کے ہو جائیں گے ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ پہاڑ سراب ہو جائیں گے ‘ یعنی دیکھنے والا کہتا ہے کہ وہ کچھ ہے حالانکہ دراصل کچھ نہیں ۔ آخر میں بالکل برباد ہو جائیں گے ، نام و نشان تک نہ رہے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنسِفُہَا رَبِّی نَسْفًا فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرَیٰ فِیہَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا» ۱؎ ‏‏‏‏(20-طہ:107-105) ’ لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ انہیں میرا رب پراگندہ کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان میں رہ جائے گی جس میں نہ کوئی موڑ ہو گا نہ ٹیلا ‘ ۔ اور جگہ ہے ‏‏‏‏«‏‏‏‏وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:47) ’ جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو دیکھے گا کہ زمین بالکل کھل گئی ہے ‘ ۔