إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا
بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے (١)
اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باہم عہد و معاملات اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اپنا جو خاص کرم کیا ہے اسے یاد دلاتا ہے کہ ’ ہم نے تجھ پر بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن کریم نازل فرمایا اب اس اکرام کے مقابلہ میں تمہیں بھی چاہیئے کہ میری راہ میں صبر و ضبط سے کام لو ، میری قضاء و قدر پر صابر شاکر رہو ، دیکھو تو سہی کہ میں اپنے حسن تدبیر سے تمہیں کہاں سے کہاں پہنچاتا ہوں ۔ ان کافروں منافقوں کی باتوں میں نہ آنا گویہ تبلیغ سے روکیں لیکن تم نہ رکنا بلا روک و رعایت ، بغیر مایوسی اور تکان کے ہر وقت وعظ ، نصیحت ، ارشاد و تلقین سے غرض رکھو میری ذات پر بھروسہ رکھو میں تمہیں لوگوں کی ایذاء سے بچاؤں گا ، تمہاری عصمت کا ذمہ دار میں ہوں ‘ ۔ ، «فاجر» کہتے ہیں ، بداعمال عاصی کو اور «کفور» کہتے ہیں دل کے منکر کو ، ’ دن کے اول آخر حصے میں رب کا نام لیا کرو ، راتوں کو تہجد کی نماز پڑھو اور دیر تک اللہ کی تسبیح کرو ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) ’ رات کو تہجد پڑھو عنقریب تمہیں تمہارا رب مقام محمود میں پہنچائے گا ‘ ۔ سورۃ مزمل کے شروع میں فرمایا «یَا أَیٰہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیلًا نِّصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیلًا أَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا» ۱؎ (73-المزمل:1-4) ’ اے لحاف اوڑھنے والے رات کا قیام کر مگر تھوڑی رات ، آدھی یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ترتیل سے پڑھ ‘ ـ پھر کفار کو روکتا ہے کہ ’ حب دنیا میں پھنس کر آخرت کو ترک نہ کرو وہ بڑا بھاری دن ہے ، اس فانی دنیا کے پیچھے پڑھ کر اس خوفناک دن کی دشواریوں سے غافل ہو جانا عقلمندی کا کام نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ سب کے خالق ہم ہیں اور سب کی مضبوط پیدائش اور قوی اعضاء ہم نے ہی بنائے ہیں اور ہم بالکل ہی قادر ہیں کہ قیامت کے دن انہیں بدل کر نئی پیدائش میں پیدا کر دیں ‘ ۔ یہاں ابتداء آفرنیش کو اعادہ کی دلیل بنائی اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ ’ اگر ہم چاہیں اور جب چاہیں ہمیں قدرت حاصل ہے کہ انہیں فنا کر دیں ، انہیں مٹا دیں اور ان جیسے دوسرے انسانوں کو ان کے قائم مقام کر دیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ اَیٰھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ وَکَان اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ قَدِیْرًا» ۱؎ (4-النساء:133) ’ اگر اللہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو برباد کر دے اور دوسرے لے آئے ۔ اللہ تعالیٰ اس پر ہر آن قادر ہے ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیزٍ» ۱؎ (14-إبراہیم:19-20) ’ اگر چاہے تمہیں فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے اللہ پر یہ گراں نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ سورت سراسر عبرت و نصیحت ہے ، جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کر کے اللہ سے ملنے کی راہ پر گامزن ہو جائے ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَمَاذَا عَلَیْہِمْ لَوْ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللّٰہُ وَکَان اللّٰہُ بِہِمْ عَلِــیْمًا» ۱؎ (4-النساء:39) ’ ان پر کیا بوجھ پڑھ جاتا اگر یہ اللہ کو ، قیامت کو مان لیتے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ بات یہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے تمہیں ہدایت کی چاہت نصیب نہیں ہو سکتی ، اللہ علیم و حکیم ہے مستحقین ہدایت کے لیے وہ ہدایت کی راہیں آسان کر دیتا ہے اور ہدایت کے اسباب مہیا کر دیتا ہے اور جو اپنے آپ کو مستحق ضلالت بنا لیتا ہے اسے وہ ہدایت سے ہٹا دیتا ہے ہر کام میں اس کی حکمت بالغہ اور حجت تامہ ہے ‘ ۔ جسے چاہے اپنی رحمت تلے لے لے اور راہ راست پر کھڑا کر دے اور جسے چاہے بے راہ چلنے دے اور راہ راست نہ سمجھائے ، اس کی ہدایت نہ تو کوئی کھو سکے ، نہ اس کی گمراہی کو کوئی راستی سے بدل سکے ، اس کے عذاب ظالموں اور نا انصافوں سے ہی مخصوص ہیں ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ انسان کی تفسیر بھی ختم ہوئی ، اللہ کا شکر ہے ۔