إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
بیشک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے۔
پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ ’ یہ سورۃ عقلمندوں کے لیے سراسر نصیحت و عبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پا لے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کر لے گا ۔ ‘ جیسے دوسری سورۃ میں فرمایا «وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا» ۱؎ (76-الإنسان:30) ’ تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے ، صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی! آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا ، کبھی آدھی رات اسی میں گزرنا ، کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام ۔ ‘ کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا ، کبھی دن چھوٹا رات بڑی ، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بنانے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم باآسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہو گا ۔ یہاں صلٰوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورۃ سبحان میں کی ہے «وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا » ۱؎ (17-الإسراء:110) ’ نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر ۔‘ نماز میں سورۂ فاتحہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ” پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے ۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:397) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی عبادہ بن صامت والی حدیث میں آ چکا ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورۃ فاتحہ پڑھے ۔ } (صحیح بخاری:756) اور صحیح مسلم شریف میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے ۔ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:385) صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔ } ۱؎ (صحیح ابن خریمہ:490:صحیح) [ پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے ] ۔ مکہ میں جہاد کی پیشن گوئی پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں ۔ ‘ مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں ، مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں ، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں ۔ یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے ، مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے ۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جا سکے کر لیا کرو ۔ ابورجاء محمد رحمہ اللہ نے حسن رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ” اے ابوسعید ! اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لیے فرمایا کہ «وَإِنَّہُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاہُ» (12-یوسف:68) ’ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے ‘ اور فرمایا «وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ» ۱؎ (6-الأنعام:91) ’ تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا ۔ ‘ میں نے کہا ، ابوسعید ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ’ جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو ۔ ‘ فرمایا : ” ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو ۔ “ پس بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک حق و واجب تھا ، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے ۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:1144) اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے ۔ سنن کی حدیث میں ہے { اے قرآن والو وتر پڑھا کرو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1416،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری روایت میں ہے { جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1419،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی رحمہ اللہ کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے ، نہ غیر رمضان میں ۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آ چکا ہے «وَقِیَامَ لَیُلِہٖ تَطَوٰعاً» یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ { گو سو ہی آیتیں ہوں ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:10940:ضعیف) لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ ’ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو ۔ ‘ یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہو چکا تھا ہاں کتنی نکالی جائے ؟ نصاب کیا ہے ؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ،عکرمہ مجاہد ، حسن ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ ” اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کر دیا ۔ “ ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گزر چکا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : ” پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں ۔ “ اس نے پوچھا : اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” باقی سب نوافل ہیں ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:46) پھر فرماتا ہے ’ اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو ۔ ‘ یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:245) ’ ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے ۔‘ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لیے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر و ثواب میں بہت ہی زیادہ ہے ۔ ابو یعلیٰ موصلی کی روایت میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ایک مرتبہ پوچھا : ” تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ “ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : ” اور سوچ لو “ ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہی بات ہے فرمایا: ” سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لیے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ تو تمہارے وارثوں کا مال ہے “ ۔ } یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6442) پھر فرمان ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ مزمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔