إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا
یقیناً تجھے دن میں بہت شغل رہتا ہے (١)
1 پھر فرماتا ہے ’ دن میں تجھے بہت فراغت ہے ، نیند کر سکتے ہو ، سو بیٹھ سکتے ہو ، راحت حاصل کر سکتے ہو ، نوافل بکثرت ادا کر سکتے ہو ، اپنے دنیوی کام کاج پورے کر سکتے ہو، پھر رات کو آخرت کے کام کے لیے خاص کر لو ۔ ‘ اس بناء پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کر دی اور فرمایا ’ تھوڑی سی رات کا قیام کرو ۔ ‘ اس فرمان کے بعد عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت «إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ» سے «فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ» ۱؎ (73-المزمل:20) تک پڑھا اور آیت «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَیٰ أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) ، کی بھی تلاوت کی ۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک ۔ مسند احمد میں ہے کہ سعید بن ہشام رحمہ اللہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے ، مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا ” سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہو جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لیے اچھائی نہیں ہے ؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آ جاؤ ۔ “ یہ حدیث سن کر سعید رحمہ اللہ نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا ۔ اب سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتر طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بتا سکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المؤمنین ہی سے دریافت کرو اور ام المؤمنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا ۔ میں حکیم بن افلح رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المؤمنین کی خدمت میں لے چلو ۔ انہوں نے فرمایا : میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لیے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئیے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا ۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا صاحبہ نے حکیم رضی اللہ عنہ کی آواز پہچان لی اور کہا : کیا حکیم ہے ؟ جواب دیا گیا کہ ہاں! میں حکیم بن افلح ہوں۔ پوچھا : تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا : سعید بن ہشام پوچھا : ہشام کون ؟ عامر کے لڑکے ؟ کہا : ہاں ! عامر کے لڑکے ۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے عامر کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے ، میں نے کہا ام المومنین مجھے بتائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا : بس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ۔ اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کر لوں ، اس سوال کے جواب میں ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کیا تم نے سورۃ مزمل نہیں پڑھی ؟ میں نے کہا : ہاں پڑھی ہے ۔ فرمایا : سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آ گیا ، بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی ۔ میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کر لوں تو میں نے کہا : ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے ۔ آپ نے فرمایا : ہاں ، سنو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے [ اور ایک وتر پڑھتے ] بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں ، اب جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے ۔ اب میں ام المؤمنین سے رخصت ہو کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المؤمنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:746) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد ابن جریر میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے کے لیے وہ بھی آ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یہ نماز فرض ہو جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ! ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ۔ ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آ جائے ، آٹھ مہینے اسی طرح گزر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضا مندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا ۔ یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورۃ مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے ، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے ، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گزر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورۃ مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا ۔ ابواسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما اور تہجد ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آ گیا پھر آیت «فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہ» ۱؎ (73-المزمل:20) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی ۔ حسن بصری اور سدی رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہو گئی ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35174:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت «عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی» سے «فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ» (73-المزمل:20) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کر دی اور تنگی نہ رکھی ۔ «فَلَہُ الْحَمْدُ» پھر فرمان ہے ’ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لیے فارغ ہو جا ۔ ‘ یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر ، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہو جا ، جیسے اور جگہ ہے «فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ» ۱؎ (94-الشرح:7) ، یعنی ’ جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ ، اخلاص ، فارغ البالی ، کوشش ، محنت ، دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کی طرف جھک جاؤ ۔ ‘ ایک حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «تتبل» سے منع فرمایا } یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1082،قال الشیخ الألبانی:حسن لغیرہ) یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو ۔ وہ مالک ہے ، وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ» ۱؎ (11-ھود:123) ’ اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر ۔ ‘ یہی مضمون آیت «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» ۱؎ (1-الفاتحۃ:5) میں بھی ہے ، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت ، اطاعت ، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے ۔