وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا
اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا (١)
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جنات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں پر جاتے کسی جگہ بیٹھتے اور کان لگا کر فرشتوں کی باتیں سنتے اور پھر آ کر کاہنوں کو خبر دیتے تھے اور کاہن ان باتوں کو بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اپنے ماننے والوں سے کہتے ۔ اب جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو آسمان پر زبردست پہرے بٹھا دیئے گئے اور ان شیاطین کو پہلے کی طرح وہاں جا بیٹھنے اور باتیں اڑا لانے کا موقعہ نہ رہا ، تاکہ قرآن اور کاہنوں کا کلام خلط ملط نہ ہو جائے اور حق کے متلاشی کو دقت واقع نہ ہو ۔ یہ مسلمان جنات اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ پہلے تو ہم آسمان پر جا بیٹھتے تھے مگر اب تو سخت پہرے لگے ہوئے ہیں اور آگ کے شعلے تاک لگائے ہوئے ہیں ایسے چھوٹ کر آتے ہیں کہ خطا ہی نہیں کرتے جلا کر بھسم کر دیتے ہیں ، اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سے حقیقی مراد کیا ہے ؟ اہل زمین کی کوئی برائی چاہی گئی ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب کا ارادہ نیکی اور بھلائی کا ہے ؟ خیال کیجئے کہ یہ مسلمان جن کس قدر ادب داں تھے کہ برائی کی اسناد کے لیے کسی فاعل کا ذکر نہیں کیا اور بھلائی کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور کہا کہ دراصل آسمان کی اس نگرانی اس حفاظت سے کیا مطلب ہے ، اسے ہم نہیں جانتے ۔ ستارے کیوں جھڑتے ہیں؟ اسی طرح حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ { الہٰی تیری طرف سے شر اور برائی نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:771) ستارے اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جھڑتے تھے لیکن اس طرح کثرت سے ان کا آگ برسانا قرآن کریم کی حفاظت و صیانت کے باعث ہوا تھا ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ { ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور بڑی روشنی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دریافت فرمایا کہ پہلے اسے جھڑتا دیکھ کر تم کیا کہا کرتے تھے ؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہمارا خیال تھا کہ یا تو یہ کسی برے آدمی کے تولد پر ٹوٹتا ہے یا کسی بڑے کی موت پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی کام کا آسمان پر فیصلہ کرتا ہے “ } الخ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2229) یہ حدیث پورے طور پر سورۃ سباء کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا ، جنات کا ان سے ہلاک ہونا ، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا ، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا چنانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گزر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے ، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہو گئے ، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا ۔ سورۃ الأحقاف کی آیت «وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مٰنْذِرِیْنَ» ۱؎ (46-الأحقاف:29) میں اس کا پورا بیان گزر چکا ہے ۔ ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی ایک خوفناک علامت تھی ، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئیے نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور عموماً انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمانی بیٹکھوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس کی باتیں اڑا لایا کرتے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنائے گئے تو ایک رات ان شیاطین پر بڑی شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گھبرا گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہو گئے انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں ، شعلے اڑ رہے ہیں اور دور دور تک تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں انہوں نے اپنے غلام آزاد کرنے ، اپنے جانور راہ اللہ چھوڑنے شروع کر دیئے ۔ آخر عبد یا لیل بن عمرہ بن عمیر نے ان سے کہا کہ اے طائف والو ! تم کیوں اپنے مال برباد کر رہے ہو ؟ تم نجوم دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ انتظامات صرف ابن ابی کبشہ کے لیے ہو رہے ہیں [ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ] اور اگر تم دیکھو کہ فی الحقیقت ستارے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تو بیشک اہل آسمان کو ہلاک شدہ مان لو ، انہوں نے نجوم دیکھا تو ستارے سب اپنی اپنی مقررہ جگہ پر نظر آئے تب انہیں چین آیا ۔ شیاطین میں بھاگ دوڑ مچ گئی یہ ابلیس کے پاس آئے واقعہ کہہ سنایا تو ابلیس نے کہا ، میرے پاس ہر ہر علاقے کی مٹی لاؤ ، چنانچہ لائی گئی ، اس نے سونگھی اور سونگھ کر بتایا کہ اس کا انقلاب کا سبب مکہ میں ہے ، سات جنات نصیبین کے رہنے والے مکہ پہنچے یہاں حضور علیہ السلام مسجد الحرام میں نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر ان کے دل نرم ہو گئے بہت ہی قریب ہو کر قرآن سنا پھر اس کے اثر سے مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام دی ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ہم نے اس تمام واقعہ کو پورا پورا اپنی کتاب ” السیرۃ “ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آغاز کے بیان میں لکھا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»