فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا
پس جب یہ عورتیں اپنی عدت کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو (١) اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو (٢) اور اللہ کی رضامندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو (٣) یہی ہے وہ جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے (٤)
عائلی قوانین ارشاد ہوتا ہے کہ ’ عدت والی عورتوں کی عدت جب پوری ہونے کے قریب پہنچ جائے تو ان کے خاوندوں کو چاہیئے کہ دو باتوں میں سے ایک کر لیں یا تو انہیں بھلائی اور سلوک کے ساتھ اپنے ہی نکاح میں روک رکھیں یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع کر کے باقاعدہ اس کے ساتھ بود و باش رکھیں یا انہیں طلاق دے دیں ، لیکن برا بھلا کہے بغیر ، گالی گلوچ دیئے بغیر ، سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ بغیر ، بھلائی اچھائی اور خوبصورتی کے ساتھ ‘ ۔ [ یہ یاد رہے کہ رجعت کا اختیار اس وقت ہے جب ایک طلاق ہوئی ہو یا دو ہوئی ہوں ] ۔ پھر فرمایا ہے ’ اگر رجعت کا ارادہ ہو اور رجعت کرو ، یعنی لوٹا لو تو اس پر دو عادل مسلمان گواہ رکھ لو ‘ ۔ ابوداؤد اور اور ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے پھر اس سے جماع کرتا ہے نہ طلاق پر گواہ رکھتا ہے نہ رجعت پر تو آپ نے فرمایا ” اس نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت رجوع کیا ، طلاق پر بھی گواہ رکھنا چاہیئے اور رجعت پر بھی ، اب دوبارہ ایسا نہ کرنا “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2186،قال الشیخ الألبانی:صحیح) عطاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” نکاح ، رجعت بغیر دو عادل گواہوں کے جائز نہیں ، جیسے فرمان اللہ ہے ہاں مجبوی ہو تو اور بات ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ گواہ مقرر کرنے اور سچی شہادت دینے کا حکم انہیں ہو رہا ہے ، جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ، اللہ کی شریعت کے پابند اور عذاب آخرت سے ڈرنے والے ہوں ‘ ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” رجعت پر گواہ رکھنا واجب ہے “ ، گو آپ رحمہ اللہ سے ایک دوسرا قول بھی مروی ہے ، اسی طرح نکاح پر گواہ رکھنا بھی آپ واجب بتاتے ہیں ۔ ایک اور جماعت کا بھی یہی قول ہے ، اس مسئلہ کو ماننے والی علماء کرام کی جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ رجعت زبانی کہے بغیر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ گواہ رکھنا ضروری ہے اور جب تک زبان سے نہ کہے گواہ کیسے مقرر کئے جائیں گے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو شخص احکام اللہ بجا لائے اس کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے مخلصی پیدا کر دیتا ہے ایک اور جگہ ہے اس طرح رزق پہنچاتا ہے کہ اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا : ” اے ابوذر ! اگر تمام لوگ صرف اسے ہی لے لیں تو کافی ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار اس کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ مجھے اونگھ آنے لگی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابوذر ! تم کیا کرو گے جب تمہیں مدینہ سے نکال دیا جائے گا ؟ “ جواب دیا کہ میں اور کشادگی اور رحمت کی طرف چلا جاؤں گا ، یعنی مکہ شریف کو ، وہیں کا کبوتر بن کر رہ جاؤں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر کیا کرو گے ، جب تمہیں وہاں سے بھی نکالا جائے ؟ “ میں نے کہا : شام کی پاک زمین میں چلا جاؤ گا ۔ فرمایا : ” جب شام سے نکالا جائے گا تو کیا کرے گا ؟ “ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ پیغمبر بنا کر بھیجا ہے پھر تو اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ کر مقابلہ پر اتر آؤں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا میں تجھے اس سے بہتر ترکیب بتاؤں ؟ “ میں نے کہا : ہاں ، اے اللہ کے رسول ! ضرور ارشاد فرمائیے ، فرمایا : ” سنتا رہ اور مانتا رہ اگرچہ حبشی غلام ہو “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4220،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” قرآن کریم میں بہت ہی جامع آیت «إِنَّ اللہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ» ۱؎ (16-النحل:90) ہے اور سب سے زیادہ کشادگی کا وعدہ اس آیت «وَمَن یَتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا» ۱؎ (65-الطلاق:2) ، میں ہے “ ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جو شخص بکثرت استغفار کرتا رہے ، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات اور ہر تنگی سے فراخی دے گا اور ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں کا اسے خیال و گمان تک نہ ہو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1518،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اسے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کے ہر کرب و بے چینی سے نجات دے گا “ ۔ ربیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” لوگوں پر کام بھاری ہو اس پر آسان ہو جائے گا “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دے گا اللہ اسے نکاسی اور نجات دے گا “ ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ ” وہ جانتا ہے کہ اللہ اگر چاہے دے اگر نہ چاہے نہ دے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” تمام امور کے شبہ سے اور موت کی تکلیف سے بچا لے گا اور روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں کا گمان بھی نہ ہو “ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہاں اللہ سے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ سنت کے مطابق طلاق دے اور سنت کے مطاق رجوع کرے “ ۔ آپ فرماتے ہیں عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کو کفار گرفتار کر کے لے گئے اور انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکثر آتے اور اپنے بیٹے کی حالت اور حاجت مصیبت اور تکلیف بیان کرتے رہتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے اور فرماتے ” عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے چھٹکارے کی سبیل بنا دے گا “ ، تھوڑے ہی دن گزرے ہوں گے کہ ان کے بیٹے دشمنوں میں سے نکل بھاگے ، راستہ میں دشمنوں کی بکریوں کا ریوڑ مل گیا جسے اپنے ساتھ ہنکا لائے اور بکریاں لیے ہوئے اپنے والد کی خدمت میں جا پہنچے پس یہ آیت اتری کہ ’ متقی بندوں کو اللہ نجات دے دیتا ہے اور اس کا گمان بھی نہ ہو وہاں سے اسے روزی پہنچاتا ہے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34287) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گناہ کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم ہو جاتا ہے ، تقدیر کو لوٹانے والی چیز صرف دعا ہے ، عمر میں زیادتی کرنے والی چیز صرف نیکی اور خوش سلوکی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4022،قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ { سیدنا مالک بن اشجعی رضی اللہ عنہ کے لڑکے عوف رضی اللہ عنہ جب کافروں کی قید میں تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان سے کہلوا دو کہ بکثرت «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ» پڑھتا رہے “ ، ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے ان کی قید کھل گئی اور یہ وہاں سے نکل بھاگے اور ان لوگوں کی ایک اونٹنی ہاتھ لگ گئی جس پر سوار ہو لیے راستے میں ان کے اونٹوں کے ریوڑ ملے انہیں بھی اپنے ساتھ ہنکا لائے ، وہ لوگ پیچھے دوڑے لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ لگے ، سیدھے اپنے گھر آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی ، باپ نے آواز سن کر فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ تو عوف ہے ، ماں نے کہا : ہائے ، وہ کہاں ، وہ تو قید و بند کی مصیبتیں جھیل رہا ہو گا ۔ اب دونوں ماں باپ اور خادم دروازے کی طرف دوڑے ، دروازہ کھولا تو ان کے لڑکے عوف رضی اللہ عنہ ہیں اور تمام انگنائی اونٹوں سے بھری پڑی ہے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسے ہیں ، انہوں نے واقعہ بیان فرمایا کہا اچھا ٹھہرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت مسئلہ دریافت کر آؤں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ سب تمہارا مال ہے ، جو چاہو کرو “ اور یہ آیت اتری کہ اللہ سے ڈرنے والوں کی مشکل اللہ آسان کرتا ہے اور بےگمان روزی پہنچاتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34288:مرسل) جو اللہ کا، اللہ اس کا ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { جو شخص ہر طرف سے کھچ کر اللہ کا ہو جائے ، اللہ اس کی ہر مشکل میں اسے کفایت کرتا ہے اور بے گمان روزیاں دیتا ہے اور جو اللہ سے ہٹ کر دنیا ہی کا ہو جائے اللہ بھی اسے اسی کے حوالے کر دیتا ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی صغیر:321:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بچے ! میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں سنو ، تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا ، اللہ کے احکام کی حفاظت کرو تو اللہ کو اپنے پاس بلکہ اپنے سامنے پاؤ گے ، جب کچھ مانگنا ہو اللہ ہی سے مانگو ، جب مدد طلب کرنی ہو اسی سے مدد چاہو ۔ تمام امت مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے اور اللہ کو منظور نہ ہو تو ذرا سا بھی نفع نہیں پہنچا سکتی اور اسی طرح سارے کے سارے جمع ہو کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو بھی نہیں پہنچا سکتے اگر تقدیر میں نہ لکھا ہو ، قلمیں اٹھ چکیں اور صحیفے خشک ہو گئے ۔ “ } ۱؎ (سنن ترمذی:2516،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے { جسے کوئی حاجت ہو اور وہ لوگوں کی طرف لے جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ سختی میں پڑ جائے اور کام مشکل ہو جائے اور جو اپنی حاجت اللہ کی طرف لے جائے اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مراد پوری کرتا ہے یا تو جلدی اسی دنیا میں ہی یا دیر کے ساتھ موت کے بعد } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1645،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ اپنے قضاء اور احکام جس طرح اور جیسے چاہے اپنی مخلوق میں پورے کرنے والا اور اچھی طرح جاری کرنے والا ہے ، ہر چیز کا اس نے اندازہ مقرر کیا ہوا ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے « اللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ أُنثَیٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلٰ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَارٍ» ۱؎ (13-الرعد:8) ’ ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے ‘ ۔