زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے (١) آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے (٢) پھر جو تم نے کیا اس کی خبر دیئے جاؤ گے (٣) اور اللہ پر یہ بلکہ آسان ہے (٤)۔
منکرین قیامت مشرکین و ملحدین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ کفار مشرکین ملحدین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے ، اے نبی! تم ان سے کہہ دو کہ ہاں اٹھو گے ، پھر تمہارے تمام چھوٹے بڑے ، چھپے کھلے اعمال کا اظہار تم پر کیا جائے گا ، سنو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا تمہیں بدلے دینا وغیرہ تمام کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہیں ‘ ۔ یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم کھا کر قیامت کی حقانیت کے بیان کرنے کو فرمایا ہے ۔ پہلی آیت تو سورۃ یونس میں ہے «وَیَسْتَنبِئُونَکَ أَحَقٌّ ہُوَ قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّہُ لَحَقٌّ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِینَ» ۱؎ (10-یونس:53) یعنی ’ یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ حق ہے ؟ تو کہہ میرے رب کی قسم وہ حق ہے اور تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے ‘ ۔ دوسری آیت سورۃ سبا میں ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلَیٰ وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ» ۱؎ (34-سبأ:3) ’ کافر کہتے ہیں ہم پر قیامت نہ آئے گی تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم یقیناً اور بالضرور آئے گی ‘ ۔ اور تیسری آیت یہی «زَعَمَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا قُلْ بَلَیٰ وَرَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ» ۱؎ (64-التغابن:7) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اللہ پر ، رسول پر ، نور منزل یعنی قرآن کریم پر ایمان لاؤ تمہارا کوئی خفیہ عمل بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں ۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو جمع کرے گا اور اسی لیے اس کا نام «یوم الجمع» ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ» ۱؎ (11-ھود:103) ’ یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے «قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَی مِیقَاتِ یَوْمٍ مَعْلُومٍ» ۱؎ (56-الواقعۃ:49-50) یعنی ’ قیامت والے دن تمام اولین اور آخرین جمع کئے جائیں گے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” «یوم التغابن» قیامت کا ایک نام ہے ، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت ، اہل دوزخ کو نقصان میں ڈالیں گے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے زیادہ «تغابن» کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں گے “ ۔ گویا اسی کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ ایماندار ، نیک اعمال والوں کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت میں انہیں داخل کیا جائے گا اور پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ جلنے کا عذاب پاتے رہیں گے بھلا اس سے برا ٹھکانا اور کیا ہو سکتا ہے ؟