يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
ساری چیزیں) جو آسمان اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاہ نہایت پاک (ہے) غالب و با حکمت ہے۔
قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے ہر بے زبان اور ناطق چیز اللہ تعالیٰ عزوجل کی پاکیزگی بیان کرتی رہتی ہے جیسے اور جگہ بھی فرمایا ہے کہ «وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ» ’ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو ‘ ، (17-الاسراء:44) تمام مخلوق خواہ آسمان کی ہو ، خواہ زمین کی ، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے ، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے ، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے ، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے ، وہ عزیز و حکیم ہے ۔ اس کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے ۔ «الْأُمِّیٰونَ» سے مراد عرب ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے «وَقُلْ لِلَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَاب وَالْأُمِّیِّینَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدْ اِہْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْک الْبَلَاغ وَاَللَّہ بَصِیر بِالْعِبَادِ» (3-آل عمران:20) ، یعنی ’ تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ ‘ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لیے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لیے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَإِنَّہُ لَذِکْر لَک وَلِقَوْمِک» (43-الزخرف:44) یعنی ’ یہ تیرے لیے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لیے بھی ‘ ، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان والوں کے لیے نصیحت ہے ۔ اسی طرح اور جگہ فرمان ہے «وَأَنْذِرْ عَشِیرَتک الْأَقْرَبِینَ» (26-الشعراء:214) ’ اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے ‘ ، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے ، ارشاد باری ہے «قُلْ یَا أَیّہَا النَّاس إِنِّی رَسُول اللَّہ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» (7-الأعراف:158) ’ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور جگہ فرمان ہے «لِأُنْذِرکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ» (6-الأنعام:19) یعنی ’ اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ‘ ، اسی طرح قرآن کی بابت فرمایا «وَمَنْ یَکْفُر بِہِ مِنْ الْأَحْزَاب فَالنَّار مَوْعِدہ» (11-ھود:17) ’ تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے ‘ ، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ، جن سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی ، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے ، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ «صَلَوَات اللَّہ وَسَلَامہ عَلَیْہِ» سورۃ الانعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» میں دعائے ابراہیمی بن کر آیا یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لیے ہے کہ خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے ، آپ نے اہل مکہ کے لیے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ! ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیج جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے ، انہیں پاکیزگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے ، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو عیسیٰ علیہ السلام کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی مرضی کے خلاف کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، آپ نے ان اَن پڑھوں کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنا دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ، سنئیے عرب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کر چکے تھے اس میں اس قدر تبدل و تغیر کر دیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ، ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کر دی تھیں ، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کر لی تھی اور متغیر کر دیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کر لیا تھا پس اللہ پاک نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں ، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں ، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں ، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروع سب سکھائیں ، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں ۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کر دیں اور ایسے دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو ، اس بلند و بالا خدمت کے لیے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کر دیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں ، نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں ، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود و سلام نازل فرماتا رہے آمین ! اہل فارس کی عظمت دوسری آیت کی تفسیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ «وَآخَرِینَ مِنْہُمْ» سے کیا مراد ہے تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا ، تب آپ نے اپنا ہاتھ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا : ” اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے “ ۔ (صحیح بخاری:4898) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لیے مخصوص نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فارس والوں کو فرمایا ۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے ۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی عرب کے سوا کے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ «إِنَّ فِی أَصْلَاب أَصْلَاب أَصْلَاب رِجَال وَنِسَاء مِنْ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ بِغَیْرِ حِسَاب» اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ( طبرانی:6005) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ «وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ ۚ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (الجمعہ:3) ۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے ، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے ۔ پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا ، اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا ، یہ خاص اللہ کا فضل ہے ، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے ، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے ۔