سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں ، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں ، بعض علماء سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے ، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں ( ۱ ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ، ( ۲ ) جب بات کرے جھوٹ بولے ، ( ۳ ) جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:33) دوسری صحیح حدیث میں ہے { چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:24) شرح صحیح بخاری کی ابتداء میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کر دی ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اسی لیے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا ، اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ، مسند احمد اور ابوداؤد میں عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ { ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لیے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کچھ دینا بھی چاہتی ہو ؟ “ میری والدہ نے کہا : ہاں ، یا رسول اللہ ! کھجوریں دوں گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا۔“ } ۱؎ (سنن ابوداود:4991،قال الشیخ الألبانی:۔صحیح) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو وفا کرنا واجب ہو جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لیے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے ۔ کیا ایفائے عہد واجب ہے؟ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں ، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہو گیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری ، جیسے اور جگہ ہے «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفٰوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدٰنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِککٰمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مٰشَیَّدَۃٍ ۗ وَإِن تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِ اللہِ ۖ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِکَ ۚ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ ۖ فَمَالِ ہٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا» ۱؎ (4-النساء:77،78) یعنی ’ کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو ، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ، کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو مؤخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے ۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیزگاروں کے لیے آخرت بہترین چیز ہے ۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو ۔‘ اور جگہ ہے «وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَۃٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَۃٌ مٰحْکَمَۃٌ وَذُکِرَ فِیہَا الْقِتَالُ ۙ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ» ۱؎ (47-محمد:20) الخ ، یعنی ’ مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی ؟ پھر جب کوئی محکم سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو ‘ ۔ اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی کہ ’ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بےایمانوں سے جہاد کرنا ہے ‘ ، تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں ۔ ‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ ’ میری راہ میں صفیں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں ‘ ، پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہو گئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان عالیشان اترا کہ ’ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے ؟‘ ۔ منافق جو کرتے نہیں وہ کہتے ہیں بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں ، کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو ، منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے ، زید بن اسلم رحمہ اللہ جہاد مراد لیتے ہیں ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر چکا چنانچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہو گئے ۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا ۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو ، سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی ، پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ، ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا «یَا أَیّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ فَتُکْتَب شَہَادَۃ فِی أَعْنَاقِکُمْ فَتُسْأَلُونَ عَنْہَا یَوْم الْقِیَامَۃ» یعنی ’ اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردنوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو ۔‘ پھر فرمایا ’ اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو ، اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو۔ ‘ مسند احمد میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے ، نماز کے لیے صفیں باندھنے والے ، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:200،قال الشیخ الألبانی:۔ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے مطرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے بروایت ابوذر ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں ، چنانچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا ، آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا : ہاں میں اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے ، میں نے پوچھا : وہ تین کون ہیں ؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا : ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت «إِنَّ اللہَ یُحِبٰ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُم بُنْیَانٌ مَّرْصُوصٌ» ۱؎ (61-الصف:4) تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2568،قال الشیخ الألبانی:۔ضعیف) ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» صف بندی تعلیم ربانی کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے : آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق ، بدزبان ، بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں ، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگزر کر کے معاف کر دیتے ہیں ۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے ، جائے ہجرت طابہ ہے ، ملک آپ کا شام ہے ، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے ، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہتے ہیں ۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور مچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہبند اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں ۔‘ پھر کعب رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا : سورج کی نگہبانی کرنے والے ، جہاں وقت نماز آ جائے نماز ادا کر لینے والے ، گو سواری پر ہوں ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفیں نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے ، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ، ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں ، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے ، پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لیے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے ۔ ابوبحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں ، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا ۔