وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ
اور زمین سے چشموں کو جاری کردیا پس اس کام کے لئے جو مقدر کیا گیا تھا (دونوں) پانی جمع ہوگئے۔
طوفان نوح موسلا دھار بارش کے دروازے آسمان سے اور ابلتے ہوئے پانی کے چشمے زمین سے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جو پانی کی جگہ نہ تھی مثلاً تنور وغیرہ وہاں سے زمین پانی اگل دیتی ہے ، ہر طرف پانی بھر جاتا ہے ، نہ آسمان سے برسنا رکتا ہے ، نہ زمین سے ابلنا تھمتا ہے ، پس حد حکم تک پہنچ جاتا ہے ۔ ہمیشہ پانی ابر سے برستا ہے لیکن اس وقت آسمان سے پانی کے دروازے کھول دئیے گئے تھے اور عذاب الٰہی پانی کی شکل میں برس رہا تھا ، نہ اس سے پہلے کبھی اتنا پانی برسا ، نہ اس کے بعد کبھی ایسا برسے ، ادھر سے آسمان کی یہ رنگت ، ادھر سے زمین کو حکم کہ پانی اگل دے پس ریل پیل ہو گئی ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آسمان کے دہانے کھول دئیے گئے اور ان میں سے براہ راست پانی برسا ۔ اس طوفان سے ہم نے اپنے بندے کو بچا لیا انہیں کشتی پر سوار کر لیا جو تختوں میں کیلیں لگا کر بنائی گئی تھی ۔ «دُسُر» کے معنی کشتی کے دائیں بائیں طرف کا حصہ اور ابتدائی حصہ جس پر موج تھپیڑے مارتی ہے اور اس کے جوڑے اور اس کی اصل کے بھی کئے گئے ہیں ، وہ ہمارے حکم سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری حفاظت میں چل رہی تھی اور صحیح و سالم آرپار جار ہی تھی ۔ نوح علیہ السلام کی مدد تھی اور کفار سے یہ انتقام تھا ہم نے اسے نشانی بنا کر چھوڑا ۔ یعنی اس کشتی کو بطور عبرت کے باقی رکھا ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس امت کے اوائل لوگوں نے بھی اسے دیکھا ہے لیکن ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کے نمونے پر اور کشتیاں ہم نے بطور نشان کے دنیا میں قائم رکھیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَآیَۃٌ لَّہُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ» * «وَخَلَقْنَا لَہُم مِّن مِّثْلِہِ مَا یَرْکَبُونَ» (36-یس:42،41) یعنی ’ ان کے لیے نشانی ہے کہ ہم نے نسل آدم کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا اور کشتی کے مانند اور بھی ایسی سواریاں دیں جن پر وہ سوار ہوں ‘ ۔ اور جگہ ہے «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ» * «لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَتَعِیَہَا أُذُنٌ وَاعِیَۃٌ» (69-الحاقۃ:12،11) یعنی ’ جب پانی نے طغیانی کی ہم نے تمہیں کشتی میں لے لیا تاکہ تمہارے لیے نصیحت و عبرت ہو اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھ سکیں ، پس کوئی ہے جو ذکر و وعظ حاصل کرے ؟ ‘ ۔ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مُدَّکِرٍ» پڑھایا ہے ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس لفظ کی قرأت اسی طرح مروی ہے } ۔ (مسند احمد:395/1:صحیح) اسود رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ یہ لفظ دال سے ہے یا ذال سے ؟ { فرمایا : میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے دال کے ساتھ سنا ہے } ۔ (صحیح بخاری:4874) اور وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دال کے ساتھ سنا ہے ۔ پھر فرماتا ہے میرا عذاب میرے ساتھ کفر کرنے اور میرے رسولوں کو جھوٹا کہنے اور میری نصیحت سے عبرت نہ حاصل کرنے والوں پر کیسا ہوا ؟ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کے دشمنوں سے بدلہ لیا اور کس طرح ان دشمنان دین حق کو نیست و نابود کر دیا ۔ ہم نے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کو ہر اس شخص کے لیے آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھے ۔ جیسے فرمایا «کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ» (38-ص:29) ’ ہم نے تیری طرف سے یہ مبارک کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور اس لیے کہ عقلمند لوگ یاد رکھ لیں ’ ۔ اور جگہ ہے «فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِینَ وَتُنذِرَ بِہِ قَوْمًا لٰدًّا» (19-مریم:97) یعنی ’ ہم نے اسے تیری زبان پر اس لیے آسان کیا ہے کہ تو پرہیزگار لوگوں کو خوشی سنا دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی قرأت اور تلاوت اللہ تعالیٰ نے آسان کر دی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس میں آسانی نہ رکھ دیتا تو مخلوق کی طاقت نہ تھی کہ اللہ عزوجل کے کلام کو پڑھ سکے ۔ میں کہتا ہوں انہی آسانیوں میں سے ایک آسانی وہ ہے جو پہلے حدیث میں گزر چکی کہ { یہ قرآن سات قرأتوں پر نازل کیا گیا ہے } ۔ (صحیح بخاری:2419) اس حدیث کے تمام طرق و الفاظ ہم نے پہلے جمع کر دئیے ہیں ، اب دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پس اس قرآن کو بہت ہی سادہ کر دیا ہے کوئی طالب علم جو اس الٰہی علم کو حاصل کرے اس کے لیے بالکل آسان ہے ۔