اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ
قیامت قریب آگئی (١) اور چاند پھٹ گیا (٢)۔
قیامت قریب آ چکی اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «أَتَیٰ أَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ» ۱؎ (16-النحل:1) یعنی ’ اللہ کا امر آ چکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو ‘ ۔ اور فرمایا «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِی غَفْلَۃٍ مُعْرِضُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:1) یعنی ’ لوگوں کے حساب کا وقت ان کے سروں پر آ پہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں ‘ ۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں ، مسند بزار میں ہے { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو خطبہ دیا جس میں فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، دنیا کے گزرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گزرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے } ۔ اس حدیث کے راویوں میں خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے ۔ ۱؎ (مسند بزار343/2) 0 دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہو چکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:116/2:حسن) مسند کی اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:338/5:صحیح) ولید بن عبدالملک کے پاس جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر { آپ نے فرمایا : ” میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم اور قربتِ قیامت ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:223/3:صحیح) اس کی شہادت اس حدیث سے ہو سکتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام «حاشر» آیا ہے اور «حاشر» وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3532) بہز کی روایت سے مروی ہے کہ { سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہو چکا ، یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھا لیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے ، اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا ، صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے ، تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں ، پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ ، سنو ! ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہو گی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی } ۔ (صحیح مسلم:2967) ابوعبدالرحمٰن سلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے ۔ جمعہ کے لیے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا سیدنا حذیفہ خطیب رضی اللہ عنہ تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا : لوگو سنو ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکرے ہو گیا ۔ بیشک قیامت قریب آ چکی ہے ، بیشک چاند پھٹ گیا ہے ، بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے ، آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے ، کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہو گا ، میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہو گی ؟ جس میں آگے نکلنا ہو گا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا : تم نادان ہو ، یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے ۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ «غایت» آگ ہے اور «سابق» وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا ۔ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے ، { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں «اللزام» بدر کی لڑائی کی ہلاکت ، «الروم» غلبہ روم ، «البطشۃ» سخت پکڑ ، «القمر» چاند کے ٹکڑے ہونا اور «والدخان» دھواں یہ سب گزر چکا ہے ۔ } (صحیح بخاری:4825) اس بارے کی حدیثیں سنئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { اہل مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہو گیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے } ۔ (صحیح مسلم:2802) بخاری میں ہے کہ { انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ، ایک حراء کے اس طرف ، ایک اس طرف } (صحیح بخاری:3285) ۔ مسند میں ہے { ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر ۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے ۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کر دیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کر سکتا } ۔ (مسند احمد:81/4:صحیح) اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں } ۔ (طبرانی کبیر:11642:ضعیف) { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے اللہ ! تو گواہ رہ “ ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ۔ (صحیح مسلم:2801-44) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا “ } ۔ (صحیح مسلم:48) آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب منیٰ میں تھے (تفسیر ابن جریر الطبری:32697:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ، ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کر سکتا ، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چنانچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے ، کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی میں کوئی شک نہیں ، اب جو باہر سے آیا ، جب کبھی آیا ، جس طرف سے آیا ، ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:545/11:) { سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا } ۔ (مسند احمد:413/1:صحیح) اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوبکر ! تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:32714:مرسل) کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے ۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آ چکے ہیں ، ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں ، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لا سکتا ۔ جیسے فرمایا «قُلْ فَلِلہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ» (6-الانعام:149) ’ اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنٰذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ» (10-یونس:101) ’ بے ایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا ‘ ۔ ٖ