سورة النجم - آیت 1

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

تفسیر سورۂ النجم شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا لے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی (ابن ابی حاتم) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا ستارے کا غائب ہونا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:503/11) بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہو سکتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے ۔ اس آیت جیسی ہی آیت «فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النٰجُومِ» * «وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ» * «إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ» * «فِی کِتَابٍ مَّکْنُونٍ» * «لَّا یَمَسٰہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ» * «تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:80-75) ہے ۔ 1 پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں ، وہ بے علمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپ کا راستہ سیدھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان شریعت کے شارع ، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول ، کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپ کو حکم الٰہی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے ، کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پاک ہوتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں ، مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے ، برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر “ ۔ اس پر ایک شخص نے کہا : کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں ۔ “ } ۱؎ (مسند احمد:257/5:صحیح بطرقہ و شواھد) مسند کی اور حدیث میں ہے { عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا ، اسے حفظ کرنے کے لیے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ، کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں ، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لکھ لیا کرو ، اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا ۔ “ } ۱؎ (مسند احمد:192/2،صحیح) یہ حدیث ابوداؤد ۱؎ (سنن ابوداود:3646،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے ۔ بزار میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا۔ “ } ۱؎ (مسند بزار:121) مسند احمد میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا “ اس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! کبھی کبھی آپ ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا ۔“ } ۱؎ (مسند احمد:340/2:حسن)