كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے (١)۔
موت و حیات اور یوم حساب تمام مخلوق کو عام اطلاع ہے کہ ہر جاندار مرنے والا ہے جیسے فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» (55-الرحمن:27) یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اور انعام والا ہے ، پس صرف وہی اللہ وحدہ لا شریک ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبھی فنا نہ ہو گا ، جن ، انسان کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مدت ختم ہو جائے گی صلب آدم سے جتنی اولاد ہونے والی تھی ہو چکی اور پھر سب موت کے گھاٹ اتر گئے مخلوقات کا خاتمہ ہو گیا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے کل اعمال کے چوٹے بڑے چھپے کھلے صغیرہ کبیرہ سب کی جزا سزا ملے گی کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا یہی اس کے بعد کے جملہ میں فرمایا جا رہا ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا کوئی آ رہا ہے ہمیں پاؤں کی چاپ سنائی دیتی تھی لیکن کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا تھا اس نے آ کر کہا اے اہل بیت! تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ، ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے تم سب کو تمہارے اعمال کا بدلہ پورا پورا قیامت کے دن دیا جائے گا ۔ ہر مصیبت کی تلافی اللہ کے پاس ہے ، ہر مرنے والے کا بدلہ ہے اور ہر فوت ہونے والے کا اپنی گمشدہ چیز کو پا لینا ہے اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اسی سے بھلی امیدیں رکھو سمجھ لو کہ سچ مچ مصیبت زدہ وہ شخص جو ثواب سے محروم رہ جائے تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اس کی رحمتیں اور برکتیں ( ابن ابی حاتم ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ یہ خضر علیہ السلام تھے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:4609/3:موضوع باطل) ۱؎ حقیقت یہ ہے کہ پورا کامیاب وہ انسان ہے جو جہنم سے نجات پا لے اور جنت میں چلا جائے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ مل جانا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے اگر تم چاہو تو پڑھو آیت «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ» (3-آل عمران:185) آخری ٹکڑے کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے(سنن ترمذی:3013،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور کچھ زیادہ الفاظ کے ساتھ ابن حبان میں ہے (صحیح ابن حبان:7417:صحیح) ۱؎ اور ابن مردویہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کی خواہش آگ سے بچ جانے اور جنت میں داخل ہو جانیکی ہو اسے چاہیئے کہ مرتے دم تک اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جسے خود اپنے پسند کرتا ہو (مسند احمد:192/2:صحیح) ۱؎ یہ حدیث پہلے آیت «وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مٰسْلِمُوْنَ» (3-آل عمران:102) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، مسند احمد میں بھی اور وکیع بن جراح کی تفسیر میں بھی یہی حدیث ہے ۔ اس کے بعد دنیا کی حقارت اور ذلت بیان ہو رہی ہے کہ یہ نہایت ذلیل فانی اور زوال پذیر چیز ہے ارشاد ہے آیت «بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدٰنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی» (87-الأعلی:16) یعنی تم تو دنیا کی زندگی پر ریجھے جاتے ہو حالانکہ دراصل بہتری اور بقاء والی چیز آخرت ہے ، دوسری آیت میں ہے «وَمَا الْحَیَاۃُ الدٰنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مَتَاعٌ» (13-الرعد:26) تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے یہ تو حیات دنیا کا فائدہ ہے اس کی بہترین زینت اور باقی رہنے والی تو وہ زندگی ہے جو اللہ کے پاس ہے ۔ حدیث شریف میں ہے اللہ کی قسم دنیا آخرت کے مقابلہ میں صرف ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو لے اس انگلی کے پانی کو سمندر کے پانی کے مقابلہ میں کیا نسبت ہے آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایسی ہی ہے(صحیح مسلم:2858) ۱؎ ، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے دنیا کیا ہے ایک یونہی دھوکے کی جگہ ہے جسے چھوڑ چھاڑ کر تمہیں چل دینا ہے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کہ یہ تو عنقریب تم سے جدا ہونے والی اور برباد ہونے والی چیز ہے پس تمہیں چاہیئے کہ ہوش مندی برتو اور یہاں اللہ کی اطاعت کر لو اور طاقت بھر نیکیاں کما لو اللہ کی دی ہوئی طاقت کے بغیر کوئی کام نہیں بنتا ۔ آزمائش لازمی ہے صبر و ضبط بھی ضروری پھر انسانی آزمائش کا ذکر ہو رہا ہے جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ» (2-البقرۃ:155) مطلب یہ ہے کہ مومن کا امتحان ضرور ہوتا ہے کبھی جانی ، کبھی مالی ، کبھی اہل و عیال میں کبھی اور کسی طرح یہ آزمائش دینداری کے انداز کے مطابق ہوتی ہے ، سخت دیندار کی ابتلاء بھی سخت اور کمزور دین والے کا امتحان بھی کمزور ، پھر پروردگار جل شانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبر دیتا ہے کہ بدر سے پہلے مدینہ میں تمہیں اہل کتاب سے اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں اور سرزنش سننی پڑے گی ، پھر تسلی دیتا ہوا طریقہ سکھاتا ہے کہ تم صبرو ضبط کر لیا کرو اور پرہیزگاری پر تو یہ بڑا بھاری کام ہے ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم مشرکین سے اور اہل کتاب سے بہت کچھ در گزر فرمایا کرتے تھے اور ان کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرتے تھے اور رب کریم کے اس فرمان پر عامل تھے یہاں تک کہ جہاد کی آیتیں اتریں ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے بنو حارث بن خزرج کے قبیلے میں تشریف لے چلے یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے راستہ میں ایک مخلوط مجلس بیٹھی ہوئی ملی جس میں مسلمان بھی تھے یہودی بھی تھی ۔ مشرکین بھی تھے اور عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا یہ بھی اب تک کفر کے کھلے رنگ میں تھا ۔ مسلمانوں میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے گردوغبار جو اڑا تو عبداللہ بن ابی سلول نے ناک پر کپڑا رکھ لیا اور کہنے لگا غبار نہ اڑاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس پہنچ ہی چکے تھے سواری سے اتر آئے سلام کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی چند آیتیں سنائیں تو عبداللہ بول پڑا سنئے صاحب آپ کا یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں آپ کی باتیں حق ہی سہی لیکن اس کی کیا وجہ کہ آپ ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں ایذاء دیں اپنے گھر جائیے جو آپ کے پاس آئے اسے سنائیے ۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں تو اس کی عین چاہت ہے اب ان کی آپس میں خوب جھڑپ ہوئی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا اور قریب تھا کہ کھڑے ہو کر لڑنے لگیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے بجھانے سے آخر امن و امان ہو گیا اور سب خاموش ہو گئے ۔ آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو حباب عبداللہ بن ابی سلول نے آج تو اس طرح کیا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جانے دیجئیے معاف کیجئے اور در گزر کیجئے قسم اللہ کی جس نے آپ پر قرآن اتارا اسے آپ سے اس لیے بے حد دشمنی ہے اور ہونی چاہیئے کہ یہاں کے لوگوں نے اسے سردار بنانا چاہا تھا اسے چودھراہٹ کی پگڑی بندھوانے کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا نبی برحق بنا کر بھیجا لوگوں نے آپ کو نبی مانا اس کی سرداری جاتی رہی جس کا اسے رنج ہے اسی باعث یہ اپنے جلے دل کے پھپولے پھوڑ رہا ہے جو کہ دیا کہ دیا آپ اسے اہمیت نہ دیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درذگر کر لیا اور یہی آپ کی عادت تھی اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بھی ، یہودیوں سے مشرکوں سے درذگر فرماتے سنی ان سنی کر دیا کرتے اور اس فرمان پر عمل کرتے ، یہی حکم آیت «وَدَّ کَثِیرٌ» (2-البقرۃ:109) ۱؎ میں ہے جو حکم عفو و درگزر کا اس آیت «وَلَتَسْمَعُنَّ» میں ہے ۔ بعد ازاں آپ کو جہاد کی اجازت دی گئی اور پہلا غزوہ بدر کا ہوا جس میں لشکر کفار کے سرداران قتل و غارت ہوئے یہ حالت اور شوکت اسلام دیکھ کر اب عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی گھبرائے بجز اس کے کوئی چارہ کار انہیں نظر نہ آیا کہ بیعت کر لیں اور بظاہر مسلمان جائیں ۔(صحیح بخاری:4566) ۱؎ پس یہ کلیہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر حق والے پر جو نیکی اور بھلائی کا حکم کرتا رہے اور جو برائی اور خلاف شرع کام سے روکتا رہے اس پر ضرور مصیبتیں اور آفتیں آتی ہیں اسے چاہیئے کہ ان تمام تکلیفوں کو جھیلے اور اللہ کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ رکھے اسی سے مدد طلب کرتا رہے اور اپنی کامل توجہ اور پورا رجوع اسی کی طرف رکھے ۔