وَفِي مُوسَىٰ إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
موسٰی (علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا۔
انجام تکبر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جس طرح قوم لوط کے انجام کو دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کر سکتے ہیں اسی قسم کا فرعونیوں کا واقعہ ہے ہم نے ان کی طرف اپنے کلیم پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کو روشن دلیلیں اور واضح برہان دے کر بھیجا لیکن ان کے سردار فرعون نے جو تکبر کا مجسمہ تھا حق کے ماننے سے عناد کیا اور ہمارے فرمان کو بےپرواہی سے ٹال دیا ‘ ۔ اس دشمن الٰہی نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر اپنے راج لشکر کے بل بوتے پر رب کے فرمان کی عزت نہ کی اور اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر موسیٰ علیہ السلام کی ایذاء رسانی پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ یا تو جادوگر ہے یا دیوانہ ہے ’ پس اس ملامتی کافر ، فاجر ، معاند ، متکبر شخص کو ہم نے اس کے لاؤ لشکر سمیت دریا برد کر دیا ‘ ۔ ’ اسی طرح عادیوں کے سراسر عبرتناک واقعات بھی تمہارے گوش گزار ہو چکے ہیں جن کی سیاہ کاریوں کے وبال میں ان پر بے برکت ہوائیں بھیجی گئیں جن ہواؤں نے سب کے حلیے بگاڑ دئیے ایک لپٹ جس چیز کو لگ گئی وہ گلی سڑی ہڈی کی طرح ہو گئی ‘ ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ہوا دوسری زمین میں مسخر ہے جب اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ہوا کے داروغہ کو حکم دیا کہ ان کی تباہی کے لیے ہوائیں چلا دو ، فرشتے نے کہا : کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا وزن کر دوں جتنا بیل کا نتھنا ہوتا ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : نہیں ، اگر اتنا وزن کر دیا تو زمین کو اور اس کائنات کو الٹ دے گی بلکہ اتنا وزن کرو جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ تھیں وہ ہوائیں جو کہ جہاں جہاں سے گزر گئیں تمام چیزوں کو تہ و بالا کرتی گئیں “ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:433/22:ضعیف) اس حدیث کا فرمان رسول ہونا تو منکر ہے سمجھ سے زیادہ قریب بات یہی ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے یرموک کی لڑائی میں انہیں دو بورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے ممکن ہے انہی میں سے یہ بات آپ نے بیان فرمائی ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ ہوائیں جنوبی تھیں ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میری مدد پروا ہواؤں سے کی گئی ہے اور عادی پچھوا ہواؤں سے ہلاک ہوئے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4105) ٹھیک اسی طرح ثمودیوں کے حالات پر اور ان کے انجام پر غور کرو کہ ان سے کہہ دیا گیا کہ ایک وقت مقررہ تک تو تم فائدہ اٹھاؤ جیسے اور جگہ فرمایا «وَأَمَّا ثَمُودُ فَہَدَیْنَـہُمْ فَاسْتَحَبٰواْ الْعَمَی عَلَی الْہُدَی فَأَخَذَتْہُمْ صَـعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُونِ» ۱؎ (41-فصلت:17) یعنی ’ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت پر ضلالت کو پسند کیا جس کے باعث ذلت کے عذاب کی ہولناک چیخ نے ان کے پتے پانی کر دئیے اور کلیجے پھاڑ دئیے یہ صرف ان کی سرکشی سرتابی نافرمانی اور سیاہ کاری کا بدلہ تھا ‘ ۔ ان پر ان کے دیکھتے دیکھتے عذاب الٰہی آ گیا تین دن تک تو یہ انتظار میں رہے عذاب کے آثار دیکھتے رہے ، آخر چوتھے دن صبح ہی صبح رب کا عذاب دفعۃً آ پڑا ، حواس باختہ ہو گئے کوئی تدبیر نہ بن پڑی ، اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ کھڑے ہو کر بھاگنے کی کوشش تو کرتے یا کسی اور طرح اپنے بچاؤ کی کچھ تو فکر کر سکتے اسی طرح ان سے پہلے قوم نوح بھی ہمارے عذاب چکھ چکی ہے اپنی بدکاری اور کھلی نافرمانی کا خمیازہ وہ بھی بھگت چکی ہے یہ تمام مفصل واقعات فرعونیوں ، عادیوں ، ثمودیوں اور قوم نوح کے اس سے پہلے کی سورتوں کی تفسیر میں کئی بار بیان ہو چکے ۔