إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ
جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔
1 اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ، وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ، ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے ، اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فوراً لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِینَ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ» ۱؎ (82-الإنفطار:12-10) ’ تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں ‘ حسن اور قتادہ رحمہما اللہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب و عذاب لکھ لیا کرتے ہیں ۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں ۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضا مندی کا کہہ گزرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضا مندی اس کے لیے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ، ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گزرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2319،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا ۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے ۔ جب بندے سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کر لی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ۔ [ ابن ابی حاتم ] امام حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لیے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ، ایک تیرے دائیں دوسرا بائیں ، دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہے عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کر دیا جائے گا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا» * «اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا» ۱؎ (17-الإسراء:14-13) ’ ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ ‘ پھر حسن رحمہ اللہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنا دیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا ، میں نے پیا ، میں گیا ، میں آیا ، میں نے دیکھا ۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے «یَمْحُو اللہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِندَہُ أُمٰ الْکِتَابِ» ’ اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے ‘ ۱؎ (13-الرعد:39) امام احمد رحمہ اللہ کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چنانچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی ۔ پھر فرماتا ہے ، اے انسان ! موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہو جائے گا جس میں آج کل تو مبتلا ہے ، اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا ، اب وہ آ گئی ، تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پا سکتا ، نہ بچ سکتا ہے ، نہ اسے روک سکتا ہے ، نہ اسے دفع کر سکتا ہے ، نہ ٹال سکتا ہے ، نہ مقابلہ کر سکتا ہے ، نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آ سکتی ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی ، تو میں نے یہ بیت پڑھا «من لا یزال دمعہ مقننعا» *** «فانہ لا بد مرۃ مدفوق» مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے ۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا «وَجَاءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنتَ مِنْہُ تَحِیدُ» ۱؎ (50-ق:19) } ’ اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی، یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا ‘ ۔ اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو ۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق رضی اللہ عنہ میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کر دیا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے : ” سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4449) اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ «ما» موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں «ما» نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی ، جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی ، بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہو گئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی ، زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا : میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مر گئی “ } ۔ ۱؎ (طبرانی:6922:ضعیف) الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گزر چکی ہے ۔ اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں کس طرح راحت و آرام حاصل کر سکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : پھر یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» ’ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے ‘ “ } ۱؎ (3-آل عمران:173) ۱؎ (سنن ترمذی:3243،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہو گا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہو گا ۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا : ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہو گا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «سائق» سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے «سائق» فرشتوں میں سے ہوں گے اور «شہید» سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا ، پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ، ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہو گا ، دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب ، تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:420/11) دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا ۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہو گئی ۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لیے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہو جائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی ۔ جیسے فرمان باری ہے «أَسْمِعْ بِہِمْ وَأَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُونَنَا لَـکِنِ الظَّالِمُونَ الْیَوْمَ فِی ضَلَالٍ مٰبِینٍ» (19-مریم:38) یعنی ’ کیا خوب دیکھنے سننے والے ہوں گے اس دن جبکہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، لیکن آج تو یہ ﻇالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ‘ اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرَی إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاکِسُو رُءُوسِہِمْ عِندَ رَبِّہِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:12) یعنی ’ کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہ گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں ‘ ۔