سورة الحجرات - آیت 1

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنے نبی کے آداب سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیر و احترام عزت و عظمت کا خیال کرنا چاہیئے ، تمام کاموں میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہنا چاہیئے ، اتباع اور تابعداری کی خو ڈالنی چاہیئے ۔ { سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا : ” اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے ؟ “ جواب دیا : اللہ کی کتاب کو ، فرمایا : ” اگر نہ پاؤ ؟ “ ، جواب دیا : سنت کو ، فرمایا : ” اگر نہ پاؤ ؟ “ جواب دیا : اجتہاد کروں گا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ” اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3592،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہاں اس حدیث کے وارد کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے ، نظر اور اجتہاد کو کتاب و سنت سے مؤخر رکھا پس کتاب و سنت پر رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ کہو ۔ عوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سامنے بولنے سے منع کر دیا گیا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں امر دین ، احکام شرعی میں سوائے اللہ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تم کسی اور چیز سے فیصلہ نہ کرو ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کسی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہل نہ کرو ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ امام سے پہلے دعا نہ کرو ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اگر فلاں فلاں میں حکم اترے تو اس طرح رکھنا چاہیئے اسے اللہ نے ناپسند فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حکم اللہ کی بجا آوری میں اللہ کا لحاظ رکھو ، اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور تمہارے ارادے جان رہا ہے ۔ پھر دوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کریں ۔ یہ آیت سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری میں ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { قریب تھا کہ وہ بہترین ہستیاں ہلاک ہو جائیں یعنی سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما ان دونوں کی آوازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند ہو گئیں جبکہ بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا تھا ایک تو اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو کہتے تھے ، جو بنی مجاشع میں تھے اور دوسرے شخص کی بابت کہتے تھے ۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” تم تو میرے خلاف ہی کیا کرتے ہو ؟ “ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ” نہیں ، نہیں آپ یہ خیال بھی نہ فرمائیے “ ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نرم کلامی کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4845) اور روایت میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے قعقاع بن معبد رضی اللہ عنہ کو اس وفد کا امیر بنائیے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے نہیں بلکہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو ، اس اختلاف میں آوازیں کچھ بلند ہو گئیں ، جس پر آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ وَرَ‌سُولِہِ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:1) نازل ہوئی اور آیت «وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» } ۔ ۱؎ (49-الحجرات:5) ۱؎ (صحیح بخاری:4847) مسند بزار میں ہے { آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بالْقَوْلِ کَجَــہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:2) کے نازل ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ” یا رسول اللہ ! قسم اللہ کی اب تو میں آپ سے اس طرح باتیں کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2257:حسن) صحیح بخاری میں ہے کہ { سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کئی دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے، اس پر ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! اس کی بابت آپ کو بتاؤں گا ، چنانچہ وہ ثابت رضی اللہ عنہ کے مکان پر آئے دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ پوچھا : کیا حال ہے ۔ جواب ملا ، برا حال ہے ، میں تو صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہو گئے اور میں جہنمی بن گیا ۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ سنایا پھر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ یہ ثابت رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:4846) مسند احمد میں بھی یہ واقعہ ہے { اس میں یہ بھی ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ ” ثابت کہاں ہیں ، نظر نہیں آتے ؟ “ اس کے آخر میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم انہیں زندہ چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ۔ یمامہ کی جنگ میں جب کہ مسلمان قدرے بددل ہو گئے تو ہم نے دیکھا کہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ خوشبو ملے ، کفن پہنے ہوئے ، دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں : ” مسلمانو تم لوگ اپنے بعد والوں کے لیے برا نمونہ نہ چھوڑ جاؤ “ ، یہ کہہ کر دشمنوں میں گھس گئے اور بہادرانہ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:137/3:صحیح) صحیح مسلم میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہیں دیکھا تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے جو ان کے پڑوسی تھے دریافت فرمایا کہ ” کیا ثابت بیمار ہیں ؟ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:187) لیکن اس حدیث کی اور سندوں میں سعد رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت معطل ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے اس لیے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس وقت زندہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کا انتقال بنو قریظہ کی جنگ کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں ہو گیا تھا اور بنو قریظہ کی جنگ سنہ ۵ ہجری میں ہوئی تھی اور یہ آیت وفد بنی تمیم کی آمد کے وقت اتری ہے اور وفود کا پے در پے آنے کا واقعہ سنہ ۹ ہجری کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر میں ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:379/11) جب یہ آیت اتری تو سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ راستے میں بیٹھ گئے اور رونے لگے سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ جب وہاں سے گزرے اور انہیں روتے دیکھا تو سبب دریافت کیا جواب ملا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل نہ ہوئی ہو میری آواز بلند ہے سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ یہ سن کر چلے گئے اور سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کی ہچکی بندھ گئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنی بیوی صاحبہ جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا میں اپنے گھوڑے کے طویلے میں جا رہا ہوں تم اس کا دروازہ باہر سے بند کر کے لوہے کی کیل سے اسے جڑ دو ۔ اللہ کی قسم ! میں اس میں سے نہ نکلوں گا یہاں تک کہ یا مر جاؤں یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے رضامند کر دے ۔ یہاں تو یہ ہوا ، وہاں جب عاصم رضی اللہ عنہ نے دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت رضی اللہ عنہ کی حالت بیان کی تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ” تم جاؤ اور ثابت کو میرے پاس بلا لاؤ “ ، لیکن عاصم رضی اللہ عنہ اس جگہ آئے تو دیکھا کہ ثابت وہاں نہیں ، مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھوڑے کے طویلے میں ہیں یہاں آ کر کہا : ثابت ! چلو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرما رہے ہیں ۔ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا : بہت خوب کیل نکال ڈالو اور دروازہ کھول دو ، پھر باہر نکل کر سرکار میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کی وجہ پوچھی ، جس کا سچا جواب سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ سے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو اور شہید ہو کر مرو اور جنت میں جاؤ “ ۔ اس پر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کا سارا رنج کافور ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں اور فرمانے لگے ” یا رسول اللہ ! میں اللہ تعالیٰ کی اور آپ کی اس بشارت پر بہت خوش ہوں اور اب آئندہ کبھی بھی اپنی آواز آپ کی آواز سے اونچی نہ کروں گا ۔ اس پر اس کے بعد کی آیت «إِنَّ الَّذِینَ یَغُضٰونَ أَصْوَاتَہُمْ عِندَ رَ‌سُولِ اللہِ أُولٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَیٰ لَہُم مَّغْفِرَ‌ۃٌ وَأَجْرٌ‌ عَظِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:3) نازل ہوئی ، یہ قصہ اسی طرح کئی ایک تابعین سے بھی مروی ہے ۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے سے منع فرما دیا ۔ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دو شخصوں کی کچھ بلند آوازیں مسجد نبوی میں سن کر وہاں آ کر ان سے فرمایا : ” تمہیں معلوم بھی ہے کہ تم کہاں ہو ؟ “ ، پھر ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا : طائف کے ، آپ نے فرمایا : اگر تم مدینے کے ہوتے تو میں تمہیں پوری سزا دیتا ۔ علماء کرام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مکروہ تھا ، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام و عزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح عام لوگوں سے باآواز بلند باتیں کرتے ہیں باتیں کرنی منع فرمائیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تسکین و وقار ، عزت و ادب ، حرمت و عظمت سے باتیں کرنی چاہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّ‌سُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُم بَعْضًا» ۱؎ (24-النور:63) ’ اے مسلمانو ! رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے تمہیں اس بلند آواز سے اس لیے روکا ہے کہ ایسا نہ ہو کسی وقت نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ناراض ہو جائیں اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے اور تمہارے کل اعمال ضبط کر لے اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ چلے ‘ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { ایک شخص اللہ کی رضا مندی کا کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کلمہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، لیکن اللہ کو وہ اتنا پسند آتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ جنتی ہو جاتا ہے ، اسی طرح انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس ایک کلمہ کی وجہ سے جہنم کے اس قدر نیچے کے طبقے میں پہنچا دیتا ہے کہ جو گڑھا آسمان و زمین سے زیادہ گہرا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6478) پھر اللہ تبارک و تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز پست کرنے کی رغبت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ اللہ کے نبی کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرتے ہیں انہیں اللہ رب العزت نے تقوے کے لیے خالص کر لیا ہے ، اہل تقویٰ اور محل تقویٰ یہی لوگ ہیں ، یہ اللہ کی مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم کے لائق ہیں ‘ ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کتاب الزہد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک تحریراً استفتاء لیا گیا کہ اے امیر المؤمنین ایک وہ شخص جسے نافرمانی کی خواہش ہی نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی اس نے کی ہو وہ اور وہ شخص جسے خواہش معصیت ہے لیکن وہ برا کام نہیں کرتا تو ان میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ جنہیں معصیت کی خواہش ہوتی ہے پھر نافرمانیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاری کے لیے آزما لیا ہے ان کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ۔