إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
جب کہ (١) ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت کو جگہ دی اور غیرت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (٢) اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا (٣) اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
1 پھر فرماتا ہے جبکہ یہ کافر اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جاہلیت کو جما چکے تھے صلح نامہ میں آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھنے سے انکار کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ لفظ رسول اللہ لکھوانے سے انکار کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی اور مومنوں کے دل کھول دئیے ان پر اپنی سکینت نازل فرما کر انہیں مضبوط کر دیا اور تقوے کے کلمے پر انہیں جما دیا یعنی «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» پر جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3265،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں جب تک کہ وہ «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» نہ کہہ لیں ، جس نے «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» کہہ لیا ، اس نے مجھ سے اپنے مال کو اور اپنی جان کو بچا لیا مگر حق اسلام کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے “ } ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ایک قوم کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا «اِنَّہُمْ کَانُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:35) یعنی ’ ان سے کہا جاتا تھا کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے ‘ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہی اس کے زیادہ حقدار اور یہی اس کے قابل بھی تھے ۔ یہ کلمہ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» ہے انہوں نے اس سے تکبر کیا اور مشرکین قریش نے اسی سے حدیبیہ والے دن تکبر کیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مدت معینہ تک کے لیے صلح نامہ مکمل کر لیا ۔ ابن جریر میں بھی یہ حدیث ان ہی زیادتیوں کے ساتھ مروی ہے لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے جملے راوی کے اپنے ہیں یعنی زہری رحمہ اللہ کا قول ہے جو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا حدیث میں ہی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اخلاص ہے ، عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ کلمہ یہ ہے «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ » ۔ مسور رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ» ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد «لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ» ہے ۔ یہی قول سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ کی وحدانیت کی شہادت ہے جو تمام تقوے کی جڑ ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے ۔ عطا خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کلمہ تقویٰ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» ہے ۔ زہری فرماتے رحمہ اللہ ہیں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» مراد ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ مستحق خیر کون ہے ؟ اور مستحق شر کون ہے ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت اسی طرح ہے «اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیتہ حمیتہ الجاھلیتہ ولو حمیتم کما حموا الفسد المسجد الحرام» یعنی ’ کافروں نے جس وقت اپنے دل میں جاہلانہ ضد پیدا کر لی اگر اس وقت تم بھی ان کی طرح ضد پر آ جاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسجد الحرام میں فساد برپا ہو جاتا ‘ ۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس قرأت کی خبر پہنچی تو بہت تیز ہوئے لیکن سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا آپ اس میں سے مجھے بھی سکھاتے تھے اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ ذی علم اور قرآن دان ہیں آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے وہ پڑھئے اور سکھائیے ۔ ۱؎ (سنن نسائی) ان احادیث کا بیان جن میں حدیبیہ کا قصہ اور صلح کا واقعہ ہے مسند احمد میں ۔ ۱؎ (مسند احمد:323/4:حسن) سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا مروان بن حکم رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارت بیت اللہ کے ارادے سے چلے آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا ، ستر اونٹ قربانی کے آپ کے ساتھ تھے ، کل ساتھی آپ کے سات سو تھے ، ایک ایک اونٹ دس دس آدمیوں کی طرف سے تھا ۔ آپ جب عسفان پہنچے تو سیدنا بشر بن سفیان کعبی رضی اللہ عنہ نے آپ کو خبر دی کہ یا رسول اللہ ! قریشیوں نے آپ کے آنے کی خبر پا کر مقابلہ کی تیاریاں کر لی ہیں ، انہوں نے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ساتھ لے لیے ہیں اور چیتے کی کھالیں پہن لی ہیں اور عہد و پیمان کر لیے ہیں کہ وہ آپ کو اس طرح جبراً مکہ میں نہیں آنے دیں گے ، خالد بن ولید کو انہوں نے چھوٹا سا لشکر دے کر کراع غمیم تک پہنچا دیا ۔ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس قریشیوں کو لڑائیوں نے کھا لیا کتنی اچھی بات تھی کہ وہ مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے اگر وہ مجھ پر غالب آ جاتے تو ان کا مقصود پورا ہو جاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور لوگوں پر غالب کر دیتا تو پھر یہ لوگ بھی دین اسلام کو قبول کر لیتے اور اگر اس وقت بھی اس دین میں نہ آنا چاہتے تو مجھ سے لڑتے اور اس وقت ان کی طاقت بھی پوری ہوتی قریشیوں نے کیا سمجھ رکھا ہے ؟ قسم اللہ کی اس دین پر میں ان سے جہاد کرتا رہوں گا اور ان سے مقابلہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے ان پر کھلم کھلا غلبہ عطا فرما دے یا میری گردن کٹ جائے “ ۔ پھر آپ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دائیں طرف حمص کے پیچھے سے اس راستہ پر چلیں جو ثنیۃ المرار کو جاتا ہے اور حدیبیہ مکہ کے نیچے کے حصے میں ہے ۔ خالد والے لشکر نے جب دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ بدل دیا ہے تو یہ دوڑے ہوئے قریشیوں کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی ، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ثنیۃ المرار میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی ، لوگ کہنے لگے اونٹنی تھک گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہ یہ تھکی ، نہ اس کی بیٹھ جانے کی عادت ہے ، اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک لیا تھا ، سنو قریش آج مجھ سے جو چیز مانگیں گے ، جس میں صلہ رحمی ہو میں انہیں دوں گا “ ۔ پھر آپ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ پڑاؤ کریں انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس پوری وادی میں پانی نہیں آپ نے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر ایک صحابی کو دیا اور فرمایا : ” اسے یہاں کے کسی کنویں میں گاڑ دو “ ، اس کے گاڑتے ہی پانی جوش مارتا ہوا ابل پڑا تمام لشکر نے پانی لے لیا اور وہ برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ جب پڑاؤ ہو گیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے اتنے میں بدیل بن ورقہ اپنے ساتھ قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں کو لے کر آیا آپ نے اس سے بھی وہی فرمایا جو بشر بن سفیان سے فرمایا تھا چنانچہ یہ لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی عجلت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے لڑنے کو نہیں آئے ، آپ تو صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت کرنے کو آئے ہیں تم اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ڈالو ۔ دراصل قبیلہ خزاعہ کے مسلم و کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرفدار تھے مکہ کی خبریں انہی لوگوں سے آپ کو پہنچا کرتی تھیں ۔ قریشیوں نے انہیں جواب دیا کہ گو آپ اسی ارادے سے آئے ہوں لیکن یوں اچانک تو ہم انہیں یہاں نہیں آنے دیں گے ورنہ لوگوں میں تو یہی باتیں ہوں گی کہ آپ مکہ گئے اور کوئی آپ کو روک نہ سکا ۔ انہوں نے پھر مکرز بن حفص کو بھیجا یہ بنو عامر بن لوئی کے قبیلے میں سے تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ عہد شکن شخص ہے “ اور اس سے بھی آپ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے آنے والے دونوں اور شخصوں سے فرمایا تھا ، یہ بھی لوٹ گیا اور جا کر قریشیوں سے سارا واقعہ بیان کر دیا قریشیوں نے پھر حلیس بن علقمہ کنانی کو بھیجا یہ ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کا سردار تھا اسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ اس قوم سے ہے جو اللہ کے کاموں کی عظمت کرتی ہے اپنی قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو “ ۔ اس نے جو دیکھا کہ ہر طرف سے قربانی کے نشان دار جانور آ جا رہے ہیں اور رک جانے کی وجہ سے ان کے بال اڑے ہوئے ہیں یہ تو وہیں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بغیر لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ اللہ جانتا ہے تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں بیت اللہ سے روکو ، اللہ کے نام کے جانور قربان گاہ سے رکے کھڑے ہیں یہ سخت ظلم ہے ، اتنے دن رکے رہنے سے ان کے بال تک اڑ گئے ہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا ہوں قریش نے کہا تو تو نرا اعرابی ہے خاموش ہو کر بیٹھ جا ۔ اب انہوں نے مشورہ کر کے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا عروہ نے اپنے جانے سے پہلے کہا کہ اے قریشیو ! جن جن کو تم نے وہاں بھیجا وہ جب واپس ہوئے تو ان سے تم نے کیا سلوک کیا ، یہ میں دیکھ رہا ہوں ، تم نے انہیں برا کہا ، ان کی بےعزتی کی ، ان پر تہمت رکھی ، ان سے بدگمانی کی ، میری حالت تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں مثل باپ کے سمجھتا ہوں ، تم خوب جانتے ہو کہ جب تم نے ہائے وائے کی میں نے اپنی تمام قوم کو اکٹھا کیا اور جس نے میری بات مانی میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور تمہاری مدد کے لیے اپنی جان مال اور اپنی قوم کو لے کر آ پہنچا سب نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ہمیں آپ سے کسی قسم کی بدگمانی نہیں آپ جائیے ۔ اب یہ چلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا کہ آپ نے ادھر ادھر کے کچھ لوگوں کو جمع کر لیا ہے اور آئے ہیں ، اپنی قوم کی شان و شوکت کو خود ہی توڑنے کے لیے ۔ سنئے یہ قریشی ہیں آج یہ مصمم ارادہ کر چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو چیتوں کی کھالیں پہنے ہوئے ہیں ، وہ اللہ کو بیچ میں رکھ کر عہد و پیمان کر چکے ہیں کہ ہرگز ہرگز آپ کو اس طرح اچانک زبردستی مکہ میں نہیں آنے دیں گے ۔ اللہ کی قسم ! مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لوگ جو اس وقت بھیڑ لگائے آپ کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں یہ لڑائی کے وقت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے ۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا ، آپ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے کہا جا لات کی وہ چوستا رہ ، ہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں ؟ عروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ابوقحافہ کے بیٹے “ ، تو کہنے لگا اگر مجھ پر تیرا احسان پہلے کا نہ ہوتا تو میں تجھے ضرور مزہ چکھاتا ۔ اس کے بعد عروہ نے پھر کچھ کہنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالا ، اس کی بےادبی کو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ برداشت نہ کر سکے ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑے تھے ، لوہا ان کے ہاتھ میں تھا ، وہی اس کے ہاتھ پر مار کر فرمایا : اپنا ہاتھ دور رکھ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو چھو نہیں سکتا ۔ یہ کہنے لگا تو بڑا ہی بدزبان اور ٹیڑھا آدمی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے ؟ “ ، تو کہنے لگا غدار تو تو کل تک طہارت بھی نہ جانتا تھا ۔ الغرض اسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے والوں کو فرمایا تھا اور یقین دلا دیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے ۔ یہ واپس چلا اور اس نے یہاں کا یہ نقشہ دیکھا تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے بنے ہوئے ہیں ، آپ کے وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ، آپ کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے وہ ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں ، آپ کا کوئی بال گر پڑے تو ہر شخص لپکتا ہے کہ وہ اسے لے لے ۔ جب یہ قریشیوں کے پاس پہنچا تو کہنے لگا : اے قریش کی جماعت کے لوگو ! میں کسریٰ کے ہاں اس کے دربار میں اور نجاشی کے یہاں اس کے دربار میں ہو آیا ہوں ، اللہ کی قسم ! میں نے ان بادشاہوں کی بھی وہ عظمت اور وہ احترام نہیں دیکھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھا ہے ۔ آپ کے اصحاب تو آپ کی وہ عزت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے اب تم سوچ سمجھ لو اور اس بات کو باور کر لو کہ اصحاب رضی اللہ عنہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ اپنے نبی کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیں ۔ اب آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں مکہ والوں کے پاس بھیجنا چاہا لیکن اس سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ سیدنا خراش بن امیہ خزاعی رضی اللہ عنہ کو اپنے اونٹ پر جس کا نام ثعلب تھا سوار کرا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا قریش نے اس اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں تھیں اور خود قاصد کو بھی قتل کر ڈالتے لیکن احابیش قوم نے انہیں بچا لیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کر دیں کیونکہ وہاں میرے قبیلہ بنو عدی کا کوئی شخص نہیں جو مجھے ان قریشیوں سے بچانے کی کوشش کرے ، اس لیے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بھیجیں جو ان کی نگاہوں میں مجھ سے بہت زیادہ ذی عزت ہیں ۔ چنانچہ آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر انہیں مکہ میں بھیجا کہ جا کر قریش سے کہہ دیں کہ ہم لڑنے کے لیے نہیں آئے بلکہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور اس کی عظمت بڑھانے کو آئے ہیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے شہر میں قدم رکھا ہی تھا جو ابان بن سعید بن عاص آپ کو مل گئے اور اپنی سواری سے اتر کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو لے چلا کہ آپ پیغام رسول اہل مکہ کو پہنچا دیں ، چنانچہ آپ وہاں گئے اور قریش کو یہ پیغام پہنچا دیا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ تو آ ہی گئے ہیں آپ اگر چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کر لیں لیکن سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کر لیں ناممکن ہے کہ میں طواف کروں قریشیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو روک لیا اور انہیں واپس نہ جانے دیا ، ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر پہنچی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ زہری رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ پھر قریشیوں نے سہیل بن عمرو کو آپ کے پاس بھیجا کہ تم جا کر صلح کر لو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سال آپ مکہ میں نہیں آ سکتے تاکہ عرب ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ وہ آئے اور تم روک نہ سکے چنانچہ سہیل یہ سفارت لے کر چلا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا : ” معلوم ہوتا ہے کہ قریشیوں کا ارادہ اب صلح کا ہو گیا جو اسے بھیجا ہے “ ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں شروع کیں اور دیر تک سوال جواب اور بات چیت ہوتی رہی ،شرائط صلح طے ہو گئیں صرف لکھنا باقی رہا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور فرمانے لگے ، کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں ، تو کہا : پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دینی معاملات میں اتنی کمزوری دکھائیں ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا عمر اللہ کے رسول کی رکاب تھامے رہو ، آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ مجھے بھی کامل یقین ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہا سے پھر بھی نہ صبر ہو سکا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسی طرح کہا ، آپ نے جواب میں فرمایا : ” سنو میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا غلام ہوں ، میں اس کے فرمان کے خلاف نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ضائع نہ کرے گا “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہنے کو تو اس وقت جوش میں ، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سب کچھ کہہ گیا لیکن پھر مجھے بڑی ندامت ہوئی میں نے اس کے بدلے بہت روزے رکھے ، بہت سی نمازیں پڑھیں اور بہت سے غلام آزاد کئے ، اس سے ڈر کر کہ مجھے اس گستاخی کی کوئی سزا اللہ کی طرف سے نہ ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صلح نامہ لکھنے کے لیے بلوایا اور فرمایا : ” لکھو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» “ اس پر سہیل نے کہا : میں اسے نہیں جانتا یوں لکھئیے «بسمک اللھم» ، آپ نے فرمایا : ” اچھا یوں ہی لکھو “ ۔ پھر فرمایا : ” لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا “ ، اس پر سہیل نے کہا : اگر میں آپ کو رسول مانتا تو آپ سے لڑتا ہی کیوں ؟ یوں لکھئے کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے کیا ، اس بات پر کہ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہ ہو گی ، لوگ امن و امان سے رہیں گے ، ایک دوسرے سے بچے ہوئے رہیں گے اور یہ کہ جو شخص آپ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر چلا جائے گا آپ اسے واپس لوٹا دیں گے اور جو صحابی رسول قریشیوں کے پاس چلا جائے گا وہ اسے نہیں لوٹائیں گے ، ہم میں آپ میں لڑائیاں بند رہیں گی ، صلح قائم رہے گی ، کوئی طوق و زنجیر قیدو بند بھی نہ ہو گا ۔ اسی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اور آپ کے عہد و پیمان میں آنا چاہے وہ آ سکتا ہے اور جو شخص قریش کے عہد و پیمان میں آنا چاہے وہ بھی آ سکتا ہے ، اس پر بنو خزاعہ جلدی سے بول اٹھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدو پیمان میں آنا اور بنوبکر نے کہا کہ ہم قریشیوں کے ساتھ ان کے ذمہ میں ہیں ۔ صلح نامہ میں یہ بھی تھا کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں ، مکہ میں نہ آئیں ، اگلے سال آئیں اس وقت ہم باہر نکل جائیں گے اور آپ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سمیت آئیں ، تین دن مکہ میں ٹھہریں ، ہتھیار اتنے ہی ہوں جتنے ایک سوار کے پاس ہوتے ہیں ، تلوار میان میں ہو ۔ ابھی صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے لڑکے سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ لوہے کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے مکہ سے چھپتے چھپاتے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدینہ سے نکلتے ہوئے ہی فتح کا یقین کئے ہوئے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھ چکے تھے اس لیے انہیں فتح ہونے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا ، یہاں آ کر جو یہ رنگ دیکھا کہ صلح ہو رہی ہے اور بغیر طواف کے ، بغیر زیارت بیت اللہ کے ، یہیں سے واپس ہونا پڑے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر صلح کر رہے ہیں ، تو اس سے وہ بہت ہی پریشان خاطر تھے ، بلکہ قریب تھا کہ ہلاک ہو جائیں ۔ یہ سب کچھ تو تھا ہی ، مزید برآں جب سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ جو مسلمان تھے اور جنہیں مشرکین نے قید کر رکھا تھا اور جن پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے تھے یہ سن کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح موقعہ پا کر بھاگ آتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس حاضر ہوتے ہیں ، تو سہیل اٹھ کر انہیں طمانچے مارنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد ! میرے آپ کے درمیان تصفیہ ہو چکا ہے یہ اس کے بعد آیا ہے لہٰذا اس شرط کے مطابق میں اسے واپس لے جاؤں گا آپ جواب دیتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے ، سہیل کھڑا ہوتا ہے اور ابوجندل کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتا ہوا انہیں لے کر چلتا ہے ، سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ بلند آواز کہتے ہیں ، اے مسلمانو ! مجھے مشرکوں کی طرف لوٹا رہے ہو ؟ ہائے یہ میرا دین مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں اس واقعہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اور برافروختہ کر دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ابوجندل صبر کر اور نیک نیت رہ اور طلب ثواب میں رہ ، نہ صرف تیرے لیے ہی بلکہ تجھ جیسے جتنے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ راستہ نکالنے والا ہے اور تم سب کو اس درد و غم ، رنج و الم ، ظلم و ستم سے چھڑوانے والا ہے ، ہم چونکہ صلح کر چکے ہیں شرطیں طے ہو چکی ہیں اس بنا پر ہم نے انہیں سردست واپس کر دیا ہے ، ہم غدر کرنا ، شرائط کے خلاف کرنا ، عہد شکنی کرنا نہیں چاہتے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو جانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ابوجندل صبر کرو ، ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ مشرک لوگ ہیں ان کا خون مثل کتے کے خون کے ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کی موٹھ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کی طرف کرتے جا رہے تھے کہ وہ تلوار کھینچ لیں اور ایک ہی وار میں باپ کے آرپار کر دیں ۔ لیکن سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کا ہاتھ باپ پر نہ اٹھا ۔ صلح نامہ مکمل ہو گیا فیصلہ پورا ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں نماز پڑھتے تھے اور جانور حلال ہونے کے لیے مضطرب تھے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اپنی اپنی قربانیاں کر لو اور سر منڈوا لو لیکن ایک بھی کھڑا نہ ہوا ، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ، آپ لوٹ کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمانے لگے : ” لوگوں کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ “ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : یا رسول اللہ! اس وقت جس قدر صدمے میں یہ ہیں آپ کو بخوبی علم ہے ، آپ ان سے کچھ نہ کہئے ، اپنی قربانی کے جانور کے پاس جائیے اور اسے جہاں وہ ہو وہیں قربان کر دیجئیے اور خود سر منڈوا لیجئے ، پھر تو ناممکن ہے کہ اور لوگ بھی یہی نہ کریں ۔ آپ نے یہی کیا اب کیا تھا ہر شخص اٹھ کھڑا ہوا قربانی کو قربان کیا اور سر منڈوا لیا ، اب آپ یہاں سے واپس چلے آدھا راستہ طے کیا ہو گا جو سورۃ الفتح نازل ہوئی ۔ یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے ۱؎ (صحیح بخاری:2731) اس میں ہے کہ آپ کے سامنے ایک ہزار کئی سو صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے قربانی کے اونٹوں کو نشان دار کیا اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے ایک جاسوس کو جو قبیلہ خزاعہ میں سے تھا ، تجسس کے لیے روانہ کیا ۔ غدیر اشطاط میں آ کر اس نے خبر دی کہ قریش نے پورا مجمع تیار کر لیا ہے ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کو بھی انہوں نے جمع کر لیا ہے اور ان کا ارادہ لڑائی کا اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ” اب بتاؤ کیا ہم ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیں اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہو گی ورنہ ہم انہیں غمگین چھوڑ کر جائیں گے اگر وہ بیٹھ رہیں گے تو اس غم و رنج میں رہیں گے اور اگر انہوں نے نجات پا لی تو یہ گردنیں ہوں گی جو اللہ عزوجل نے کاٹ دی ہوں گی ۔ دیکھو تو بھلا کتنا ظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے کو آئے ، نہ کسی اور ارادے سے آئے ، صرف اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں اور وہ ہمیں روک رہے ہیں ، بتاؤ ان سے ہم کیوں نہ لڑیں ؟ “ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! آپ بیت اللہ کی زیارت کو نکلے ہیں ، آپ چلے چلئیے ہمارا ارادہ جدال و قتال کا نہیں لیکن جو ہمیں اللہ کے گھر سے روکے گا ہم اس سے ضرور لڑیں گے خواہ کوئی ہو ، آپ نے فرمایا : ” بس اب اللہ کا نام لو اور چل کھڑے ہو “ ۔ کچھ اور آگے چل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خالد بن ولید طلائیہ کا لشکر لے کر آ رہا ہے پس تم دائیں طرف کو ہو لو ، خالد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان کے کلے پر پہنچ گئے ۔ اب خالد دوڑا ہوا قریشیوں میں پہنچا اور انہیں اس سے مطلع کیا ، اونٹنی کا نام اس روایت میں قصویٰ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جو کچھ وہ مجھ سے طلب کریں گے میں دوں گا بشرطیکہ حرمت اللہ کی اہانت نہ ہو پھر جو آپ نے اونٹنی کو للکارا تو وہ فوراً کھڑی ہو گئی ۔ بدیل بن ورقاء خزاعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر قریشیوں کو جب جواب پہنچاتا ہے تو عروہ بن مسعود ثقفی کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرا کر جو پہلے بیان ہو چکا یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھو اس شخص نے نہایت معقول اور واجبی بات کہی ہے اسے قبول کر لو ۔ اور جب یہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر آپ کا یہی جواب آپ کے منہ سے سنتا ہے ، تو آپ سے کہتا ہے کہ سنئیے جناب دو ہی باتیں ہیں ، یا آپ غالب وہ مغلوب ، یا وہ غالب آپ مغلوب اگر پہلی بات ہی ہوئی تو بھی کیا ہوا ، آپ ہی کی قوم ہے ، آپ نے کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ جس نے اپنی قوم کا ستیاناس کیا ہو ؟ اور اگر دوسری بات ہو گی تو یہ جتنے آپ کے پاس ہیں ، میں تو دیکھتا ہوں کہ سارے ہی آپ کو چھوڑ چھاڑ دوڑ جائیں گے ۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ جواب دیا جو پہلے گزر چکا ۔ مغیرہ والے بیان میں یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود تھا ، ان کے مارنے پر عروہ نے کہا غدار میں نے تو تیری غداری میں تیرا ساتھ دیا تھا ، بات یہ ہے کہ پہلے یہ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کے ایک گروہ کے ساتھ تھے ، موقعہ پا کر انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، آپ نے فرمایا : ” تمہارا اسلام تو میں منظور کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں “ ۔ عروہ نے یہاں یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ آپ تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے ، آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوتے ہی فرمانبرداری کے لیے ایک سے ایک آگے بڑھتا ہے ، جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء بدن سے گرے ہوئے پانی پر جو قریب ہوتا ہے یوں لپکتا ہے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم لڑ پڑیں ، جب آپ بات کرتے ہیں تو بالکل سناٹا ہو جاتا ہے ، مجال نہیں جو کہیں سے چوں کی آواز بھی سنائی دے ۔ حد تعظیم یہ ہے کہ صحابہ آنکھ بھر کر آپ کے چہرہ منور کی طرف تکتے ہی نہیں بلکہ نیچی نگاہوں سے ہر وقت باادب رہتے ہیں اس نے پھر واپس آ کر یہی حال قریشیوں کو سنایا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو انصاف و عدل کی بات پیش کر رہے ہیں اسے مان لو ۔ بنو کنانہ کے جس شخص کو اس کے بعد قریش نے بھیجا اسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ لوگ قربانی کے جانوروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اس لیے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو اور اس کی طرف ہانک دو “ ۔ اس نے جو یہ منظر دیکھا ادھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی زبانی لبیک کی صدائیں سنیں تو کہہ اٹھا کہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا نہایت لغو حرکت ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ مکرز کو دیکھ کر آپ نے فرمایا : ” یہ ایک تاجر شخص ہے “ ، ابھی یہ بیٹھا باتیں کر ہی رہا تھا جو سہیل آ گیا اسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ” لو اب کام سہل ہو گیا “ ، اس نے جب «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا : ” واللہ ! میں رسول اللہ ہی ہوں گو تم نہ مانو “ ۔ یہ اس بنا پر کہ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی تو آپ نے کہہ دیا تھا کہ یہ حرمات الٰہی کی عزت رکھتے ہوئے ، مجھ سے جو کہیں گے میں منظور کر لوں گا ، آپ نے صلح نامہ لکھواتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمیں یہ بیت اللہ کی زیارت کر لینے دیں گے لیکن سہیل نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہم دب گئے اور کچھ نہ کر سکے ۔ جب یہ شرط ہو رہی تھی کہ جو کافر ان میں سے مسلمان ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے واپس کر دیں گے اس پر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور ہم اسے کافروں کو سونپ دیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آ گئے ، سہیل نے کہا اسے واپس کیجئے ۔ آپ نے فرمایا : ” ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا میں اسے کیسے واپس کر دوں ؟ “ اس نے کہا : پھر تو اللہ کی قسم میں کسی طرح اور کسی شرط پر صلح کرنے میں رضامند نہیں ہوں ، آپ نے فرمایا : ” تم خود مجھے خاص اس کی بابت اجازت دے دو “ ، اس نے کہا میں اس کی اجازت بھی آپ کو نہیں دوں گا ، آپ نے دوبارہ فرمایا لیکن اس نے پھر بھی انکار کر دیا ۔ مگر مکرز نے کہا ہاں ہم آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ اس وقت سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے فریاد کی ان بیچاروں کو مشرکین بڑی سخت سنگین سزائیں کر رہے تھے ، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ کہا جو پہلے گزر چکا ، پھر پوچھا : کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف بھی کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں یہ تو میں نے کہا ہے ، لیکن یہ تو نہیں کہا یہ اسی سال ہو گا “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں یہ تو آپ نے نہیں فرمایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بس تو تم وہاں جاؤ گے ضرور اور بیت اللہ کا طواف کرو گے ضرور “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہی کہا جس کا اوپر بیان گزرا ہے اس میں اتنا اور ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ؟ اس کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں ، پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا اسی طرح ذکر کیا اور وہی جواب مجھے ملا جو ذکر ہوا ۔ جو جواب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور نائی کو بلوا کر سر منڈوا لیا پھر تو سب صحابہ ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور قربانیوں سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا سر خود مونڈنے لگے اور مارے غم کے اور اژدھام کے قریب تھا کہ آس میں لڑ پڑیں ۔ اس کے بعد ایمان والی عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں جن کے بارے میں آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ ۭ اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِـاِیْمَانِہِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ ۭ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلٰوْنَ لَہُنَّ ۭ وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ۭ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ۭ ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ ۭ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ ۭ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:10) نازل ہوئی ۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے تحت اپنی دو مشرکہ بیویوں کو اسی دن طلاق دے دی جن میں سے ایک نے معاویہ بن ابوسفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے نکاح کر لیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے واپس لوٹ کر مدینہ شریف آ گئے ۔ سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نامی ایک قریشی جو مسلمان تھے موقعہ پا کر مکہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ شریف پہنچے ان کے پیچھے ہی دو کافر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عہد نامہ کی بنا پر اس شخص کو آپ واپس کیجئے ہم قریشیوں کے بھیجے ہوئے قاصد ہیں اور سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس لینے کے لیے آئے ہیں آپ نے فرمایا : ” اچھی بات ہے میں اسے واپس کر دیتا ہوں “ ۔ چنانچہ آپ نے سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو انہیں سونپ دیا یہ انہیں لے کر چلے جب ذوالحلیفہ پہنچے کھجوریں کھانے لگے ، تو سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک شخص سے کہا : واللہ ! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی تلوار نہایت عمدہ ہے ۔ اس نے کہا : ہاں بیشک بہت ہی اچھے لوہے کی ہے ، میں نے بارہا اس کا تجربہ کر لیا ہے اس کی کاٹ کا کیا پوچھنا ہے ؟ یوں کہتے ہوئے اس نے تلوار میان سے نکال لی ۔ سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھا کر کہا ، ذرا مجھے دکھانا اس نے دے دی آپ نے ہاتھ میں لیتے ہی تول کر ایک ہی ہاتھ میں اس ایک کافر کا تو کام تمام کیا ، دوسرا اس رنگ کو دیکھتے ہی مٹھیاں بند کر کے ایسا سرپٹ بھاگا کہ سیدھا مدینہ پہنچ کر دم لیا ، اسے دیکھتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ بڑی گھبراہٹ میں ہے کوئی خوفناک منظر دیکھ چکا ہے “ ، اتنے میں یہ قریب پہنچ گیا اور دہائیاں دینے لگا کہ حضور میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور میں بھی اب تھوڑے دم کا مہمان ہوں دیکھئیے وہ آیا ۔ اتنے میں سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ کو پورا کر دیا آپ نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے ان کے حوالے کر دیا ، اب یہ اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے کہ اس نے مجھے ان سے رہائی دلوائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس یہ کیسا شخص ہے ؟ یہ تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے ، کاش کہ کوئی اسے سمجھا دیتا “ ، یہ سنتے ہی سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ چونک گئے کہ معلوم ہوتا ہے ، آپ شاید مجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کر دیں گے ، یہ سوچتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے مدینہ کو الوداع کہا اور لمبے قدموں سمندر کے کنارے کی طرف چل دئیے اور وہیں بودوباش اختیار کر لی یہ واقعہ مشہور ہو گیا ۔ ادھر سے سیدنا ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ جنہیں حدیبیہ میں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کیا تھا وہ بھی موقعہ پا کر مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور براہ راست سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے ۔ اب یہ ہوا کہ مشرکین قریش میں سے جو بھی ایمان قبول کرتا سیدھا سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس آ جاتا اور یہیں رہتا سہتا یہاں تک کہ ایک خاص معقول جماعت ایسے ہی لوگوں کی یہاں جمع ہو گئی ۔ اور انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ قریشیوں کا جو قافلہ شام کی طرف جانے کے لیے نکلتا یہ اس سے جنگ کرتے جس میں قریشی کفار قتل بھی ہوئے اور ان کے مال بھی ان مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ لگے یہاں تک کہ قریش تنگ آ گئے بالاخر انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آدمی کو بھیجا کہ حضور ہم پر رحم فرما کر ان لوگوں کو وہاں سے واپس بلوا لیجئے ، ہم ان سے دستبردار ہوتے ہیں ، ان میں سے جو بھی آپ کے پاس آ جائے وہ امن میں ہے ، ہم آپ کو اپنی رشتہ داریاں یاد دلاتے ہیں اور اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس بلوا لیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ان حضرات کے پاس ایک آدمی بھیج کر سب کو بلوا لیا اور اللہ عزوجل نے آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) نازل فرمائی ۔ ان کفار کی حمیت جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہ لکھنے دی آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھنے دیا آپ کو بیت اللہ شریف کی زیارت نہ کرنے دی ۔ صحیح بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں ہے { حبیب بن ابوثابت رحمہ اللہ کہتے ہیں میں ابووائل کے پاس گیا تاکہ ان سے پوچھوں ، انہوں نے کہا : ہم صفین میں تھے ایک شخص نے کہا کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں ۔ پس سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں پس سہیل بن حنیف نے کہا : اپنی جانوں پر تہمت رکھو ، ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ والے دن دیکھا یعنی اس صلح کے موقعہ پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اگر ہماری رائے لڑنے کی ہوتی تو ہم یقیناً لڑتے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، کہا : پھر ہم کیوں اپنے دین میں جھک جائیں اور لوٹ جائیں ؟ حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں ان میں کوئی فیصلہ کن کاروائی نہیں کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہ کرے گا “ ، یہ جواب سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوٹ آئے لیکن بہت غصے میں تھے ، وہاں سے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہی سوال و جواب یہاں بھی ہوئے اور سورۃ الفتح نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4844) بعض روایات میں سہیل بن حنیف کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ { میں نے اپنے آپ کو ابوجندل والے دن دیکھا کہ اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو لوٹانے کی قدرت ہوتی تو میں یقیناً لوٹا دیتا ، اس میں یہ بھی ہے کہ جب سورۃ الفتح اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ سورت انہیں سنائی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:48) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ { جس وقت یہ شرط طے ہوئی کہ ان کا آدمی انہیں واپس کیا جائے اور ہمارا آدمی وہ واپس نہ کریں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا ہم یہ بھی مان لیں ؟ اور لکھ دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، اس لیے کہ ہم میں سے جو ان میں جائے ، اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1748) مسند احمد میں { سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب خارجی نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے ان سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن جب مشرکین سے صلح کی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : لکھو ! یہ وہ شرائط صلح ہیں جن پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تو مشرکین نے کہا : اگر ہم آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مانتے تو آپ سے ہرگز نہ لڑتے ، تو آپ نے فرمایا : ” علی ! اسے مٹا دو ، اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں ، علی اسے کاٹ دو اور لکھو یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح کی محمد بن عبداللہ نے “ ۔ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بہت بہتر تھے پھر بھی آپ نے اس لکھے ہوئے کو کٹوایا اس سے کچھ آپ نبوت سے نہیں نکل گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:342/1:حسن) مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن ستر اونٹ قربان کئے جن میں ایک اونٹ ابوجہل کا بھی تھا جب یہ اونٹ بیت اللہ سے روک دئیے گئے تو اس طرح نالہ و بکا کرتے تھے جیسے کسی سے اس کا دودھ پیتا بچہ الگ ہو گیا ہو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:314/1:ضعیف)