هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا (١) اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے روکا اور اگر ایسے بہت سے مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی (٢) یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا (٣) تو تمہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی (٤) لیکن ایسا نہیں کیا (٥) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے۔ ( ٦)
مسجد حرام بیت اللہ کے اصل حقدار مشرکین عرب جو قریش تھے اور جو ان کے ساتھ اس عہد پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے ان کی نسبت قرآن خبر دیتا ہے کہ دراصل یہ لوگ کفر پر ہیں ، انہوں نے ہی تمہیں مسجد الحرام بیت اللہ شریف سے روکا ہے حالانکہ اصلی حقدار اور زیادہ لائق بیت اللہ کے تم ہی لوگ تھے ، پھر ان کی سرکشی اور مخالفت نے انہیں یہاں تک اندھا کر دیا کہ اللہ کی راہ کی قربانیوں کو بھی قربان گاہ تک نہ جانے دیا ، یہ قربانیاں تعداد میں ستر تھیں جیسے کہ عنقریب ان کا بیان آ رہا ہے ۔ «ان شاءاللہ تعالیٰ» پھر فرماتا ہے کہ سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں یہ راز پوشیدہ تھے کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکے میں ایسے ہیں جو ان ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کر سکے ہیں ، نہ ہجرت کر کے تم میں مل سکے ہیں اور نہ تم انہیں جانتے ہو ، تو یوں دفعۃً اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہو جاتے اور بےعلمی میں تم ہی مستحق گناہ اور مستحق دیت بن جاتے ۔ پس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لے آئیں ۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے تو یقیناً ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور ان کا نام مٹا دیتے ۔ جنید بن سبیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑ رہا تھا لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا میں مسلمان ہو گیا اور اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا ، ہمارے ہی بارے میں یہ آیت «وَلَوْلَا رِجَالٌ مٰؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مٰؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوہُمْ» ۱؎ (48-الفتح:25) نازل ہوئی ہے ۔ ہم کل نو شخص تھے سات مرد و عورتیں ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1560) اور روایت میں ہے کہ ہم تین مرد تھے اور نو عورتیں تھیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر یہ مومن ان کافروں میں ملے جلے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کافروں کو سخت سزا دیتا یہ قتل کر دئیے جاتے ۔