يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اپنے بھائیوں کے حق میں جب کہ وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں کہا اگر ہمارے پاس ہوتے نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (١) اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کو اللہ تعالیٰ ان کی دلی حسرت کا سبب بنا دے (٢) اللہ تعالیٰ جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے۔
باطل خیالات کی نشاندہی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں جیسے فاسد اعتقاد رکھنے کی ممانعت فرما رہا ہے یہ کفار سمجھتے تھے کہ ان کے لوگ جو سفر میں یا لڑائی میں مرے اگر وہ سفر اور لڑائی نہ کرتے تو نہ مرتے پھر فرماتا ہے کہ یہ باطل خیال بھی ان کی حسرت و افسوس کا بڑھانے والا ہے ، دراصل موت و حیات اللہ کے ہاتھ ہے مرتا ہے اس کی چاہت سے اور زندگی ملتی ہے تو اس کے ارادے سے، تمام امور کا جاری کرنا اس کے قبضہ میں ہے اس کی قضاء و قدر ٹلتی نہیں اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے کوئی چیز باہر نہیں تمام مخلوق کے ہر امر کو وہ بخوبی جانتا ہے ۔ دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا یا مرنا اللہ کی مغفرت و رحمت کا ذریعہ ہے اور یہ قطعاً دنیا و مافیہا سے بہتر ہے کیونکہ یہ فانی ہے اور وہ باقی اور ابدی ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ کسی طرح دنیا چھوڑو مر کر یا قتل ہو کر لوٹنا تو اللہ ہی کی طرف ہے پھر اپنے اعمال کا بدلہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے برا ہو تو بھلا ہو تو ۔ !