هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آپڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
جنت میں جنت کے حقدار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ دیکھو تو یہ مشرک قیامت کا انتظار کر رہے ہیں جو محض بےسود ہے اس لیے کہ اس کے آنے کا کسی کو صحیح وقت تو معلوم نہیں وہ اچانک یونہی بے خبری کی حالت میں آ جائے گی اس وقت گو نادم ہوں لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ یہ اسے ناممکن سمجھے ہوئے ہیں لیکن وہ نہ صرف ممکن بلکہ یقیناً آنے ہی والی ہے اور اس وقت کا یا اس کے بعد کا کوئی عمل کسی کو کچھ نفع نہ دے گا اس دن تو جن کی دوستیاں غیر اللہ کے لیے تھیں وہ سب عدوات سے بدل جائیں گی یہاں جو دوستی اللہ کے واسطے تھی وہ باقی اور دائم رہے گی ‘ ۔ جیسے خلیل الرحمن علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللہِ أَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ » ۱؎ ( 29-العنکبوت : 25 ) ’ تم نے بتوں سے جو دوستیاں کر رکھی ہیں یہ صرف دنیا کے رہنے تک ہی ہیں قیامت کے دن تو ایک دوسرے کا نہ صرف انکار کریں گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور کوئی نہ ہو گا جو تمہاری امداد پر آئے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ” دو ایماندار جو آپس میں دوست ہوتے ہیں جب ان میں سے ایک کا انتقال ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری ملتی ہے تو وہ اپنے دوست کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ فلاں شخص میرا دلی دوست تھا جو مجھے تیرے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا تھا بھلائی کی ہدایت کرتا تھا برائی سے روکتا تھا اور مجھے یقین دلایا کرتا تھا کہ ایک روز اللہ سے ملنا ہے ، پس اے باری تعالیٰ تو اسے راہ حق پر ثابت قدر رکھ یہاں تک کہ اسے بھی تو وہ دکھائے جو تو نے مجھے دکھایا ہے اور اس سے بھی اسی طرح راضی ہو جائے جس طرح مجھ سے راضی ہوا ہے ۔ اللہ کی طرف سے جواب ملتا ہے ’ تو ٹھنڈے کلیجوں چلا جا اس کے لیے جو کچھ میں نے تیار کیا ہے اگر تو اسے دیکھ لیتا تو تو بہت ہنستا اور بالکل آزردہ نہ ہوتا ‘ ۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں ملتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’ تم آپس میں ایک دوسرے کا تعلق بیان کرو ‘ ، پس ہر ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ یہ میرا بڑا اچھا بھائی تھا اور نہایت نیک ساتھی تھا اور بہت بہتر دوست تھا ۔ دو کافر جو آپس میں ایک دوسرے کے دوست تھے جب ان میں سے ایک مرتا ہے اور جہنم کی خبر دیا جاتا ہے تو اسے بھی اپنا دوست یاد آتا ہے اور کہتا ہے باری تعالیٰ فلاں شخص میرا دوست تھا تیری اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی مجھے تعلیم دیتا تھا برائیوں کی رغبت دلاتا تھا بھلائیوں سے روکتا تھا اور تیری ملاقات نہ ہونے کا مجھے یقین دلاتا تھا پس تو اسے میرے بعد ہدایت نہ کرتا کہ وہ بھی وہی دیکھے جو میں نے دیکھا اور اس پر تو اسی طرح ناراض ہو جس طرح مجھ پر غضب ناک ہوا ۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں جمع کی جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’ تم دونوں ایک دوسرے کے اوصاف بیان کرو ‘ ، تو ہر ایک کہتا ہے تو بڑا برا بھائی تھا اور بدترین دوست تھا “۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں ” ہر دوستی قیامت کے دن دشمنی سے بدل جائے گی مگر پرہیزگاروں کی دوستی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ جن دو شخصوں نے اللہ کے لیے آپس میں دوستانہ کر رکھا ہے خواہ ایک مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں لیکن قیامت کے دن اللہ انہیں جمع کر کے فرمائے گا کہ ’ یہ جسے تو میری وجہ سے چاہتا تھا ‘ ۔۱؎ (مختصر تاریخ دمشق:79/27:اسنادہ ضعیف) پھر فرمایا کہ ان متقیوں سے روز قیامت میں کہا جائے گا کہ ’ تم خوف و ہراس سے دور ہو ۔ ہر طرح امن چین سے رہو سہو یہ ہے تمہارے ایمان و اسلام کا بدلہ ‘ ۔ یعنی باطن میں یقین و اعتقاد کامل ۔ اور ظاہر میں شریعت پر عمل ۔ معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ” قیامت کے دن جب کہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے کھڑے کئے جائیں گے ۔ تو سب کے سب گھبراہٹ اور بے چینی میں ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ’ اے میرے بندو ! آج کے دن نہ تم پر خوشہ ہے نہ خوف ‘ ، تو تمام کے تمام اسے عام سمجھ کر خوش ہو جائیں گے وہیں منادی کہے گا ’ وہ لوگ جو دل سے ایمان لائے تھے اور جسم سے نیک کام کئے تھے ‘ ، اس وقت سوائے سچے پکے مسلمانوں کے باقی سب مایوس ہو جائیں گے پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم نعمت وسعادت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ “ ۔ سورۃ الروم میں اس کی تفسیر گذر چکی ہے ۔