سورة الزخرف - آیت 15

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو جز ٹھہرا (١) دیا یقیناً انسان کھلا ناشکرا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مشرکین کا بدترین فعل اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس افترا اور کذب کا بیان فرماتا ہے جو انہوں نے اللہ کے نام منسوب کر رکھا ہے جس کا ذکر سورۃ الانعام کی آیت «وَجَعَلُوا لِلہِ مِمَّا ذَرَ‌أَ مِنَ الْحَرْ‌ثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَ‌کَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَ‌کَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ إِلَی اللہِ وَمَا کَانَ لِلہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَیٰ شُرَ‌کَائِہِمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ»۱؎ (6-الأنعام:136) میں ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان مشرکین نے ان میں سے کچھ حصہ تو اللہ کا مقرر کیا اور اپنے طور پر کہہ دیا کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا اب جو ان کے معبودوں کے نام کا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو ہر چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کو پہنچ جاتی ہے ان کی یہ تجویز کیسی بری ہے ؟ ‘ اسی طرح مشرکین نے لڑکے لڑکیوں کی تقسیم کر کے لڑکیاں تو اللہ سے متعلق کر دیں جو ان کے خیال میں ذلیل و خوار تھیں اور لڑکے اپنے لیے پسند کئے جیسے کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے «اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی تِلْکَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِیزَیٰ» ۱؎ (53-النجم:22-21) ، ’ کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بےڈھنگی تقسیم ہے ۔ ‘ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان مشرکین نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء قرار دے لیا ہے۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کی اس بدتمیزی کو دیکھو کہ جب یہ لڑکیوں کو خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیسے پسند کرتے ہیں ؟ ان کی یہ حالت ہے کہ جب ان میں سے کسی کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی تو منہ بسور لیتا ہے گویا ایک شرمناک اندوہ ناک خبر سنی۔ ‘ کسی سے ذکر تک نہیں کرتا اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے ذرا سا منہ نکل آتا ہے ۔ لیکن پھر اپنی کامل حماقت کا مظاہرہ کرنے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کی لڑکیاں ہیں یہ خوب مزے کی بات ہے کہ خود جس چیز سے گھبرائیں اللہ کے لیے وہ ثابت کریں ۔ پھر فرماتا ہے عورتیں ناقص سمجھی جاتی ہیں جن کے نقصانات کی تلافی زیورات اور آرائش سے کی جاتی ہے اور بچپن سے مرتے دم تک وہ بناؤ سنگھار کی محتاج سمجھی جاتی ہیں پھر بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے کے وقت ان کی زبان نہیں چلتی دلیل نہیں دے سکتیں عاجز رہ جاتی ہیں مغلوب ہو جاتی ہیں ایسی چیز کو جناب باری علی و عظیم کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی نقصان اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ جس کے ظاہری نقصان کو زینت اور زیورات سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی جیسے کہ بعض عرب شاعروں کے اشعار ہیں «وَمَا الْحُلِیّ إِلَّا زِینَۃ مِنْ نَقِیصَۃ » «یُتَمِّم مِنْ حُسْن إِذَا الْحُسْن قَصَّرَا » «وَأَمَّا إِذَا کَانَ الْجَمَال مُوَفَّرًا » «کَحُسْنِک لَمْ یَحْتَجْ إِلَی أَنْ یُزَوَّرَا » یعنی زیورات کمی حسن کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ بھرپور جمال کو زیورات کی کیا ضرورت؟ اور باطنی نقصان بھی ہیں جیسے بدلہ نہ لے سکنا نہ زبان سے نہ ہمت سے۔ ان مضمون کو بھی عربوں نے ادا کیا ہے جبکہ یہ صرف رونے دھونے سے ہی مدد کر سکتی ہے اور چوری چھپے کوئی بھلائی کر سکتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے فرشتوں کو عورتیں سمجھ رکھا ہے ان سے پوچھو کہ کیا جب وہ پیدا ہوئے تو تم وہاں موجود تھے ؟ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان باتوں سے بے خبر ہیں سب ہمارے پاس لکھی ہوئی ہیں اور قیامت کے دن تم سے ان کا سوال بھی ہو گا جس سے تمہیں ڈرنا چاہیئے اور ہوشیار رہنا چاہیئے ۔ ‘ پھر ان کی مزید حماقت بیان فرماتا ہے کہ ’ کہتے ہیں ہم نے فرشتوں کو عورتیں سمجھا پھر ان کی مورتیں بنائیں اور پھر انہیں پوج رہے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم میں ان میں حائل ہو جاتا اور ہم انہیں نہ پوج سکتے ۔ ‘ پس جبکہ ہم انہیں پوج رہے ہیں اور اللہ ہم میں اور ان میں حائل نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ ہماری یہ پوجا غلط نہیں بلکہ صحیح ہے ۔ پس پہلی خطا تو ان کی یہ کہ اللہ کے لیے اولاد ثابت کی دوسری خطا یہ کہ فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں قرار دیں تیسری خطا یہ کہ کہ انہی کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ جس پر کوئی دلیل و حجت نہیں صرف اپنے بڑوں اور اگلوں اور باپ دادوں کی کورانہ تقلید ہے چوتھی خطا یہ کہ اسے اللہ کی طرف سے مقدر مانا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر رب اس سے ناخوش ہوتا تو ہمیں اتنی طاقت ہی نہ دیتا کہ ہم ان کی پرستش کریں اور یہ ان کی صریح جہالت و خباثت ہے اللہ تعالیٰ اس سے سراسر ناخوش ہے ۔ ایک ایک پیغمبر اس کی تردید کرتا رہا ایک ایک کتاب اس کی برائی بیان کرتی رہی جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ۭ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:36) ، یعنی ’ ہر امت میں ہم نے رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے کی عبادت سے بچو ۔ پھر بعض تو ایسے نکلے جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور بعض ایسے بھی نکلے جن پر گمراہی کی بات ثابت ہو چکی تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا برا حشر ہوا ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَسْـَٔـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رٰسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یٰعْبَدُوْنَ» (43-الزخرف:45) ۱؎ ، یعنی ’ تو ان رسولوں سے پوچھ لے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا تھا کیا ہم نے اپنے سوا دوسروں کی پرستش کی انہیں اجازت دی تھی ؟‘ پھر فرماتا ہے ’ یہ دلیل تو ان کی بڑی بودی ہے اور بودی یوں ہے کہ یہ بےعلم ہیں ، باتیں بنا لیتے ہیں اور جھوٹ بول لیتے ہیں ۔ ‘ یعنی یہ اللہ کی اس پر قدرت کو نہیں جانتے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:175/11)