سورة غافر - آیت 15

رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے ۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے «مِّنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ تَعْرُجُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرٰوحُ إِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ» ( 70- المعارج : 4 ، 3 ) ، یعنی وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں ۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اور اس بات کا بیان ان شاءاللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے ، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گذر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے وہ جس پر چاہے وحی بھیجے ۔ جیسے «یُنَزِّلُ الْمَلٰۗیِٕکَۃَ بالرٰوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ» ( 16- النحل : 2 ) ، وہ فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے ڈرتے رہو اور جگہ فرمان ہے«وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» ( 26- الشعراء : 194-192 ) یعنی یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے ۔ جسے معتبر فرشتے نے تیرے دل پر اتارا ہے ۔ تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے ۔ جس میں آدم خود اور ان کی اولاد میں سے سب سے آخری بچہ ایک دوسرے سے مل لے گا ۔ حضرت ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں بندے اللہ سے ملیں گے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں آسمان والے اور زمین والے آپس میں ملاقات کریں گے ۔ خالق و مخلوق ، ظالم و مظلوم ملیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے ملاقات کرے گا ۔ بلکہ عامل اور اس کا عمل بھی ملے گا ۔ آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے ۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے ، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہو گی ۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے ۔ اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے ؟ کون ہو گا جو جواب تک دے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے ۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا ۔ میں بادشاہ ہوں ، میں جبار ہوں متکبر ہوں ۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں ؟ (صحیح مسلم:2788) صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کر لے گا ۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا ۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا ۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہرچیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہرچیز ہے ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ لوگو ! قیامت آ گئی جسے مردے زندے سب سنیں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لیے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لیے ، پھر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہو گا بلکہ نیکیاں دس دس گنا کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اے میرے بندو ! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے ۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں ۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا ۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے ۔(صحیح مسلم:2577) پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے«مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ۭ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ » ( 31- لقمان : 28 ) یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کر دینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کر دینے کی مانند ہے اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ» ( 54- القمر : 50 ) یعنی ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہو جاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول لی ۔