إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِينٍ
جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا (١) میں مٹی سے انسان کو پیدا (٢) کرنے والا ہوں۔
تخلیق آدم اور ابلیس کی سرکشی یہ قصہ سورۃ البقرہ ، سورۃ الاعراف ، سورۃ الحجر ، سورۃ الإسراء ، سورۃ الکہف اور اس سورۃ ص میں بیان ہوا ہے ۔ آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے ۔ پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی ۔ ہاں ابلیس اس سے رکا ، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا ۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی ۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا ؟ یہ تکبر ! اور یہ سرکشی ؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی ؟ اس خطاکار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نافرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا ۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے ۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی ۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کو منظور بھی یہی تھا جیسا کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلا«قَالَ اَرَءَیْتَکَ ہٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ۡ لَیِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا» ( 17- الإسراء : 62 ) ، اور «اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ » ( 15- الحجر : 42 ) فالحق کو مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے ۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے« وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰیہَا وَلٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ» ( 32- السجدۃ : 13 ) یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے«قَالَ اذْہَبْ فَمَن تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا » ( 17-سورۃ الإسراء : 65 ) ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے ۔