وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ
آدم علیہ السلام کی وجہ فضیلت یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی ۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ علیہ السلام کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت آدم کو اس لیے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں ۔ فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں ، زمین ، آسمان ، پہاڑ ، تری ، خشکی ، گھوڑے ، گدھے ، برتن ، چرند ، فرشتے ، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے (تفسیر ابن جریر الطبری:458/1) ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد «عرضھم» آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لیے آتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کا ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّاءٍ» ( 24 ۔ النور : 45 ) اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں ۔ علاوہ ازیں «عَرْضَھُنَّ» بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «عَرَضھَا» بھی ہے ۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی ، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا ۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث لائے ہیں ۔ مسئلہ شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایماندار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں ۔ جو ہم اس سے راحت پائیں ۔ آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا ۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جنہں اللہ تعالٰی نے زمین والوں کی طرف بھیجا ۔ سب لوگ یہ جواب سن کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لیے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ یہ سب آپ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے ۔ آپ علیہ السلام فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی ۔ یہ سن کر سب کے سب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ علیہ السلام کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں ۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں ۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا ۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا ، کہئے سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا ۔ میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا ۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا ۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لیے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو (صحیح بخاری:4476:صحیح) ( یعنی شرک و کفر کرنے والے ) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے ۔(صحیح مسلم:193:صحیح) یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ ” بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے “ سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ ۔ (عبدالرزاق:42/1) لیکن قول پہلا ہی ہے ۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں ۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں ۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں ۔ انہی کے نام بتاؤ ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا ؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہٰ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہما اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت «لا الہ الا اللہ» تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا «سبحان اللہ» کیا کلمہ ہے ؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لیے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے ۔ میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے ۔ آدم نے نام بتا دیے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے ، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دیے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:118/1-119) جب آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَاِنْ تَجْــہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی» ( 20 ۔ طہٰ : 7 ) تم بلند آواز سے کہو ( یا نہ کہو ) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت «أَلَّا یَسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ» ( 27-النمل : 25 ، 26 ) کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے ۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جو تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا ۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابوالعالیہ رحمہ اللہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بے خبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے ۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی ۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی ۔ اب جب کہ فرشتوں نے آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:498/1) اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لیے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں ۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَاءِ الْحُـجُرٰتِ» ( 49 ۔ الحجرات : 4 ) جو لوگ تمہیں اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئیے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا ۔ اسی طرح آیت «وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 72 ) میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ۔