سورة الصافات - آیت 1

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

قسم ہے صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

فرشتوں کا تذکرہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں ۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں ۔ مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے ۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں ۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے ۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے } } ۔۱؎ (صحیح مسلم:522) مسلم وغیرہ میں ہے کہ { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : { تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں } ۔ ہم نے کہا وہ کس طرح ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:430) ڈانٹنے والوں سے مراد سدی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں ۔ ربیع بن انس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں ۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے «فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا » ۱؎ (77-المرسلات:6،5) یعنی ’ وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے ‘ ۔ ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود بر حق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے ۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے ، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں ۔ مشرقوں کا ذکر کر کے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ۔ دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے «رَبٰ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبٰ الْمَغْرِبَیْنِ» ۱؎ (55-الرحمن:17) یعنی ’ جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے ‘ ۔