سورة فاطر - آیت 19

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ایک موازنہ ارشاد ہوتا ہے کہ مومن و کفار برابر نہیں۔ جس طرح اندھا اور دیکھتا۔ اندھیرا اور روشنی، سایہ اور دھوپ، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ جس طرح ان چیزوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اسی طرح ایماندار اور بے ایمان میں بھی بے انتہا فرق ہے۔ مومن آنکھوں والے اجالے، سائے اور زندہ کی مانند ہے۔ برخلاف اس کے کافر اندھے اندھیرے اور بھرپور لو والی گرمی کی مانند ہے۔ جیسے فرمایا «اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظٰلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ۭ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:122) ، یعنی جو مردہ تھا پھر اسے ہم نے زندہ کر دیا اور اسے نور دیا جسے لیے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے ایسا شخص اور وہ شخص جو اندھیروں میں گھرا ہوا ہے جن سے نکل ہی نہیں سکتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اور آیت میں ہے «مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰی وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ ۭ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا ۭ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (11-ہود:24) ، یعنی ان دونوں جماعتوں کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے اور سننے والوں کی سی ہے۔ مومن تو آنکھوں اور کانوں والا اجالے اور نور والا ہے پھر راہ مستقیم پر ہے۔ جو صحیح طور پر سایوں اور نہروں والی جنت میں پہنچے گا اور اس کے برعکس کافر اندھا بہرا اور اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے جن سے نکل ہی نہ سکے گا اور ٹھیک جہنم میں پہنچے گا۔ جو تند و تیز حرارت اور گرمی والی آگ کا مخزن ہے۔ اللہ جسے چاہے سنا دے یعنی اس طرح سننے کی توفیق دے کہ دل سن کر قبول بھی کرتا جائے۔ تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا۔