يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انھیں اس سے بری فرما دیا (١) اور اللہ کے نزدیک با عزت تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کا مزاج صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { موسیٰ علیہ السلام بہت ہی شرمیلے اور بڑے لحاظ دار تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4799) یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا ۔ کتاب التفسیر میں تو امام صاحب رحمہ اللہ اس حدیث کو اتنا ہی مختصر لائے ہیں ، لیکن احادیث انبیاء علیہم السلام کے بیان میں اسے مطول لائے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { وہ بوجہ سخت حیاء و شرم کے اپنا بدن کسی کے سامنے ننگا نہیں کرتے تھے ۔ بنو اسرائیل آپ علیہ السلام کو ایذاء دینے کے درپے ہو گئے اور یہ افواہ اڑا دی کہ چونکہ ان کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا ان کے بیضے بڑھ گئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے اس وجہ سے یہ اس قدر پردے داری کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ یہ بدگمانی آپ علیہ السلام سے دور کر دے ۔ ایک دن موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام تنہائی میں ننگے نہا رہے تھے ، ایک پتھر پر آپ علیہ السلام نے کپڑے رکھ دیئے تھے ، جب غسل سے فارغ ہو کر آئے ، کپڑے لینے چاہے تو پتھر آگے کو سرک گیا ۔ آپ علیہ السلام اپنی لکڑی لیے اس کے پیچھے گئے وہ دوڑنے لگا ۔ آپ علیہ السلام بھی اے پتھر میرے کپڑے میرے کپڑے کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے ۔ بنی اسرائیل کی جماعت ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ جب آپ علیہ السلام وہاں تک پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے پتھر ٹھہر گیا ۔ آپ علیہ السلام نے اپنے کپڑے پہن لیے ۔ بنو اسرائیل نے آپ علیہ السلام کے تمام جسم کو دیکھ لیا اور جو فضول باتیں ان کے کانوں میں پڑی تھیں ان سے اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کو بری کر دیا ۔ غصے میں موسیٰ علیہ السلام نے تین یا چار پانچ لکڑیاں پتھر پر ماری تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { واللہ لکڑیوں کے نشان اس پتھر پر پڑ گئے } ۔ اسی برأت وغیرہ کا ذکر اس آیت میں ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3404) یہ حدیث مسلم میں نہیں یہ روایت بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں ہے ۔ بعض روایتیں موقوف بھی ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” ایک مرتبہ موسیٰ اور ہارون علیہما السلام پہاڑ پر گئے جہاں ہارون علیہ السلام کا انتقال ہو گیا لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف بدگمانی کی اور آپ علیہ السلام کو ستانا شروع کیا ۔ پروردگار عالم نے فرشتوں کو حکم دیا اور وہ اسے اٹھا لائے اور بنو اسرائیل کی مجلس کے پاس سے گزرے اللہ نے اسے زبان دی اور قدرتی موت کا اظہار کیا ۔ ان کی قبر کا صحیح نشان نامعلوم ہے صرف اس ٹیلے کا لوگوں کو علم ہے اور وہی ان کی قبر کی جگہ جانتا ہے لیکن بے زبان ہے “ ۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایذاء یہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایذاء ہو جس کا بیان پہلے گزرا ۔ لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اور یہ دونوں ہوں بلکہ ان کے سوا اور بھی ایذائیں ہوں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں میں کچھ تقسیم کیا اس پر ایک شخص نے کہا اس تقسیم سے اللہ کی رضا مندی کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جب یہ سنا تو میں نے کہا اے اللہ کے دشمن میں تیری اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور پہنچاؤں گا ۔ چنانچہ میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر فرمایا : { اللہ کی رحمت ہو موسیٰ علیہ السلام پر وہ اس سے بہت زیادہ ایذاء دے گئے لیکن صبر کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4335) اور روایت میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ارشاد تھا کہ { کوئی بھی میرے پاس کسی کی طرف سے کوئی بات نہ پہنچائے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تم میں آ کر بیٹھوں تو میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بات چبھتی ہوئی نہ ہو } ۔ ایک مرتبہ کچھ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لوگوں میں تقسیم کیا ۔ دو شخض اس کے بعد آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ واللہ اس تقسیم سے نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خوشی کا ارادہ کیا نہ آخرت کے گھر کا ۔ میں ٹھہر گیا اور دونوں کی باتیں سنیں ۔ پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ { کسی کی کوئی بات میرے سامنے نہ لایا کرو } ۔ ابھی کا واقعہ ہے کہ میں جا رہا تھا جو فلاں اور فلاں سے میں نے یہ باتیں سنیں اسے سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بہت ہی گراں گزری ۔ پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا : { عبداللہ جانے دو دیکھو موسیٰ علیہ السلام اس سے بھی زیادہ ستائے گئے لیکن انہوں نے صبر کیا } } ۔ (مسند احمد:395/1:ضعیف) قرآن فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والے تھے ۔ مستجاب الدعوت تھے ۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوتی تھی ۔ ہاں اللہ کا دیدار نہ ہوا اس لیے کہ یہ طاقت انسانی سے خارج تھا ۔ سب سے بڑھ کر ان کی وجاہت کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کیلئے نبوت مانگی اللہ نے وہ بھی عطا فرمائی ۔ فرماتا ہے «وَوَہَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ نَبِیًّا» ۱؎ (19-مریم:53) ’ ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ‘ ۔