تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے (١) اور تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں (٢) اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انھیں دیدے اس پر سب کی سب راضی ہیں۔ (٣)
روایات و احکامات بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کشادگی کرتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5113) پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں ۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں ۔ عامر شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جنہیں مؤخر کر رکھا تھا ان میں ام شریک رضی اللہ عنہا تھیں ۔ ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں مؤخر کریں ۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے ۔ بعض فقہاء شافعیہ کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم واجب تھی ۔ بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت لیا کرتے تھے ۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز نہ جانے دوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4789) پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے ۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سب کو شامل ہے ۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار تھا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سہولت والا ہے ۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں ۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی ۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داد دیں گی ۔ اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے ‘ ۔ مسند میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ { الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا ۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:144/6:ضعیف) یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں ، اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے ، لیکن حلم و کرم والا ہے ۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے ۔