سورة الأحزاب - آیت 41

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مسلمانوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بہترین دعا بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ’ ہمیں اس کا بکثرت ذکر کرنا چاہیئے اور اس پر بھی ہمیں نعمتوں اور بڑے اجر و ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے ‘ ۔ { ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا میں تمہارے بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو راہ اللہ خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں ؟ } لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے ؟ فرمایا : { اللہ عزوجل کا ذکر } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3377،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث پہلے «وَالذَّاکِرِینَ اللہَ کَثِیرًا وَالذَّاکِرَاتِ» ۱؎ (33-الأحزاب:35) کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سنی ہے جسے میں کسی وقت ترک نہیں کرتا ۔ دعا یہ ہے « اللہُمَّ ، اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ ، وَأَتْبَعُ نَصِیحَتَکَ ، وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ ، وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ» یعنی اے اللہ تو مجھے اپنا بہت بڑا شکر گزار ، فرماں بردار ، بکثرت ذکر کرنے والا اور تیرے احکام کی حفاظت کرنے والا بنا دے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3604،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { دو اعرابی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے پوچھا ” سب سے اچھا شخص کون ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو لمبی عمر پائے ، اور نیک اعمال کرے } ۔ دوسرے نے پوچھا ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم احکام اسلام تو بہت سارے ہیں مجھے کوئی چوٹی کا حکم بتا دیجئیے کہ اس میں چمٹ جاؤں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ذکر اللہ میں ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھ } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3375،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر میں ہر وقت مشغول رہو یہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:517:ضعیف) { فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو یہاں تک کہ منافق تمہیں ریا کار کہنے لگیں } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12786:ضعیف) { فرماتے ہیں جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت افسوس کا باعث بنے گی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:224/2:صحیح) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہر فرض کام کی کوئی حد ہے ، پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے ۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے ۔ کھڑے بیٹھے لیٹے رات کو دن کو خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں غنا میں فقر میں صحت میں بیماری پوشیدگی میں ظاہر میں غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیئے ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیئے ۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمہارے لیے ہر وقت دعاگو رہیں گے “ ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث و آثار ہیں ۔ اس آیت میں بھی بکثرت ذکر اللہ کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے ۔ بزرگوں نے ذکر اللہ اور وظائف کی بہت سی مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے امام نسائی ، امام معمری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ ان سب میں بہترین کتاب اس موضوع پر امام نووی رحمہ اللہ علیہ کی ہے ۔ صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو ۔ جیسے فرمایا «فَسُبْحَانَ اللہِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِیًّا وَحِینَ تُظْہِرُونَ» ۱؎ (30-الروم:18-17) ، ’ اللہ کے لیے پاکی ہے ۔ جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو ، اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور بعد از زوال اور ظہر کے وقت ‘ ۔ پھر اس کی فضیلت بیان کرنے اور اس کی طرف رغبت دلانے کے لیے فرماتا ہے ’ وہ خود تم پر رحمت بھیج رہا ہے ‘ ۔ یعنی جب وہ تمہاری یاد رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ تم اس کے ذکر سے غفلت کرو ؟ جیسے فرمایا «کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ» ۱؎ (2-البقرۃ:152-151) ، ’ جس طرح ہم نے تم میں خود تم ہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری کتاب پڑھتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جسے تم جانتے ہی نہ تھے ۔ پس تم میرا ذکر کرو میں تمہاری یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو ‘ ۔ حدیث قدسی میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہوتی ہے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7405) «الصَّلَاۃُ» جب اللہ کی طرف مضاف ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی اپنے فرشتوں کے سامنے بیان کرتا ہے ۔ اور قول میں ہے مراد اس کی رحمت ہے ۔ اور دونوں قولوں کا انجام ایک ہی ہے ۔ فرشتوں کی «الصَّلَاۃُ» ان کی دعا اور استغفار ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِی وَعَدْتَہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ وَقِہِمُ السَّیِّئَاتِ» ۱؎ (40-غافر:7-9) ، ’ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس والے اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں ، اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومن بندوں کے لیے استغفار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہرچیز کو رحمت و علم سے گھیر لیا ہے ۔ اے اللہ تو انہیں بخش جو توبہ کرتے ہیں اور تیری راہ پر چلتے ہیں ۔ انہیں عذاب جہنم سے بھی نجات دے ۔ انہیں ان جنتوں میں لے جا جن کا تو ان سے وعدہ کر چکا ہے ۔ اور انہیں بھی ان کے ساتھ پہنچا جو ان کے باپ دادوں بیویوں اور اولادوں میں سے نیک ہیں ، انہیں برائیوں سے بچا لے ۔ وہ اللہ اپنی رحمت کو تم پر نازل فرما کر اپنے فرشتوں کی دعا کو تمہارے حق میں قبول فرما کر تمہیں جہالت وو ضلالت کی اندھیریوں سے نکال کر ھدایت و یقین کے نور کی طرف لے جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مومنوں پر رحیم و کریم ہے ‘ ۔ دنیا میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں گھبراہٹ اور ڈر خوف سے بچا لے گا ۔ فرشتے آ کر انہیں بشارت دیں گے کہ تم جہنم سے آزاد ہو اور جنتی ہو ۔ کیونکہ ان فرشتوں کے دل مومنوں کی محبت و الفت سے پُر ہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا بچہ راستے میں تھا اس کی ماں نے ایک جماعت کو آتے ہوئے دیکھا تو میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی اور بچے کو گود میں لے کر ایک طرف ہٹ گئی ۔ ماں کی اس محبت کو دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیال تو فرمائیے کیا یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مطلب کو سمجھ کر فرمانے لگے { قسم اللہ کی ! اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کو آگ میں نہیں ڈالے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:104/3:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیدی عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے بچے کو دیکھتے ہی اٹھا لیا اور اپنے کلیجے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بتاؤ تو اگر اس کے اختیار میں ہو تو کیا یہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ } صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قسم ہے اللہ کی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ، اللہ کی طرف سے ان کا ثمرہ جس دن یہ اس سے ملیں گے سلام ہوگا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5999) جیسے فرمایا «سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ۱؎ (36-یس:58) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے گا “ ۔ اس کی تائید بھی آیت «دَعْوَاہُمْ فِیہَا سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیہَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (10-یونس:10) ، سے ہوتی ہے ۔ اللہ نے ان کے لیے اجر کریم یعنی جنت مع اس کی تمام نعمتوں کے تیار کر رکھی ہے ۔ جن میں سے ہر نعمت کھانا پینا پہننا اوڑھنا عورتیں لذتیں منظر وغیرہ ایسی ہیں کہ آج تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں ، چہ جائیکہ دیکھنے میں یا سننے میں آئیں ۔