وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا (١) اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا (٢) اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔
اللہ عزوجل کفار سے خود نپٹے اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ ’ اس نے طوفان باد و باراں بھیج کر اور اپنے نہ نظر آنے والے لشکر اتار کر کافروں کی کمر توڑی دی اور انہیں سخت مایوسی اور نامرادی کے ساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا ۔ بلکہ اگر رحمۃ اللعالمین کی امت میں یہ نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ وہی کرتیں جو عادیوں کے ساتھ اس بے برکت ہوا نے کیا تھا ‘ ۔ چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ «وَکَفَی اللہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللہُ قَوِیًّا عَزِیزًا» ۱؎ (8-الأنفال:33) ’ تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا لہٰذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا ۔ ان کے مجمع کو منتشر کر کے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا ‘ ۔ چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لیے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کر دیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت ؟ کہاں کی فتح ؟ جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ و تاب کھاتے ذلت ورسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے ۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ ۔ کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دیدے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کر لیا ۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مومنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا ۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا ۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے ۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہو گیا ۔ { اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی ۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں } ۔ (صحیح بخاری:4114) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : « اللہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، اہْزِمِ الْأَحْزَابَ . اللہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ» اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4115) اس فرمان «وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَکَان اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا» ۱؎ (33-الأحزاب:25) یعنی ’ اللہ نے مومنوں کی کفایت جنگ سے کر دی ‘ ۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں ۔ چنانچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے ۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکن و آرام گاہ کو محفوظ کر لیا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ بلکہ برخلاف اس کے مسلمان ان پر چڑھ چڑھ گئے یہاں تک کہ عرب کی سر زمین سے اللہ نے شرک و کفر ختم کر دیا ۔ جب اس جنگ سے کافر لوٹے اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علہ وسلم نے بطور پیشن گوئی فرما دیا تھا کہ { اس سال کے بعد قریش تم سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ تم ان سے جنگ کرو گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4110) چنانچہ یہی ہوا ، یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا ۔ اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں ۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا ۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا ۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا ۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔