فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے (١) یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں (٢) ایسے لوگ نجات پانے والے ہیں۔
صلہ رحمی کی تاکید قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو ۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے ۔ مسافر جس کا خرچ کم پڑ گیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے ۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لیے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں ۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی ۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مجاہد ، ضحاک ، قتادۃ ، عکرمہ ، محمد بن کعب اور شعبی رحمہ اللہ علیہم سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں ۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے ۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہوگا ۔ اسی کی مشابہ آیت «وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ» ۱؎ (74-المدثر:6) ہے یعنی ’ زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” سود یعنی نفع کی دوصورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے ۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے ۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں “ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { جو شخص ایک کھجور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہو جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1410) اللہ ہی خالق ورازق ہے ۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا ، بےعلم ، بے کان ، بےآنکھ ، بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطا فرماتا ہے ۔ مال ، ملکیت ، کمائی ، تجارت غرض بےشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے ۔ دوصحابیوں رضوان اللہ علیہم کا بیان ہے کہ { ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بٹایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { دیکھو سرہ لنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا ۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4798،) ۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا ۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کر رہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا ۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کر سکتا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے ۔ وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا ۔ اس کی مقدس ، منزہ ، معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ «احد» ہے ، «صمد» ہے، فرد ہے، ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کفو کوئی نہیں ۔