أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ
کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں (١) کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں (١)
احسان کے بدلے احسان؟ اللہ تعالیٰ قریش کو اپنا احسان جتاتا ہے کہ اس نے اپنے حرم میں انہیں جگہ دی ۔ جو شخص اس میں آ جائے ، امن میں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کے آس پاس جدال وقتال ، لوٹ مار ہوتی رہتی ہے اور یہاں والے امن و امان سے اپنے دن گزارتے ہیں ۔ جیسے سورۃ «لِإِیلَافِ قُرَیْشٍ إِیلَافِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِی أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ» ۱؎ (106-قریش:1-4) میں بیان فرمایا ۔ تو کیا اس اتنی بڑی نعمت کا شکریہ یہی ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کریں ؟ بجائے ایمان لانے کے ، شرک کریں اور خود تباہ ہو کر دوسروں کو بھی اسی ہلاکت والی راہ لے چلیں ۔ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ واحد کی عبادت میں سب سے بڑھے ہوئے رہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے اور سچے طرف دار رہیں ۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس اللہ کے ساتھ شرک و کفر کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا اور ایذاء پہنچانا شروع کر رکھا ہے ۔ اپنی سرکشی میں یہاں تک بڑھ گئے کہ اللہ کے پیغمبر کو مکے سے نکال دیا ۔ بالآخر اللہ کی نعمتیں ان سے چھننی شروع ہو گئیں ۔ بدر کے دن ان کے بڑے بری طرح قتل ہوئے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ کو فتح کیا اور انہیں ذلیل و پست کیا ۔ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھے ۔ وحی آتی نہ ہو اور کہہ دے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جو اللہ کی سچی وحی اور حق کو جھٹلائے اور باوجود حق پہنچنے کے تکذیب پر کمربستہ رہے ۔ ایسے مفتری اور مکذب لوگ کافر ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ راہ اللہ میں مشقت کرنے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اصحاب اور آپ کے تابع فرمان لوگ ہیں جو قیامت تک ہوں گے ۔ فرماتا ہے کہ ہم ان کوشش اور جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کریں گے ۔ دنیا اور دین میں ان کی رہبری کرتے رہیں گے ۔ ابواحمد عباس ہمدانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم پر عمل کرتے ہیں ، اللہ انہیں ان امور میں بھی ہدایت دیتا ہے جو ان کے علم میں نہیں ہوتے ۔ ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ سے جب یہ ذکر کیا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں کوئی بات پیدا ہو ، گو وہ بھلی بات ہو ۔ تاہم اسے اس پر عمل نہ کرنا چاہیے جب تک قرآن و حدیث سے وہ ثابت نہ ہو ۔ جب ثابت ہو عمل کرے ۔ اور اللہ کی حمد کرے کہ جو اس کے جی میں آیا تھا ۔ وہی قرآن و حدیث میں بھی نکلا ۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے ساتھ ہے ۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ احسان اس کا نام ہے جو تیرے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کے ساتھ نیک سلوک کرے ۔ احسان کرنے والوں سے احسان کرنے کا نام احسان نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔