وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ (١) پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں (٢)
توحید ربویت توحید الوہیت اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ معبود برحق صرف وہی ہے ۔ خود مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ، سورج کو مسخر کرنے والا ، دن رات کو پے در پے لانے والا ، خالق ، رازق ، موت و حیات پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ غنا کے لائق کون ہے اور فقر کے لائق کون ہے ؟ اپنے بندوں کی مصلحتیں اس کو پوری طرح معلوم ہیں ۔ پس جبکہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، سب پر قابض صرف وہی ہے ۔ پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟ اور اس کے سوا دوسروں پر توکل کیوں کرتے ہیں ؟ جبکہ ملک کا مالک وہ تنہا ہے تو عبادتوں کے لائق بھی وہ اکیلا ہے ۔ توحید ربوبیت کو مان کر پھر توحید الوہیت سے انحراف عجیب چیز ہے ۔ قرآن کریم میں توحید ربوبیت کے ساتھ ہی توحید الوہیت کا ذکر بکثرت ہے ۔ اس لیے کہ توحید ربویت کے قائل مشرکین مکہ تو تھے ہی ، انہیں قائل معقول کر کے پھر توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔ { مشرکین حج و عمرے میں لبیک پکارتے ہوئے بھی اللہ کے لاشریک ہونے کا اقرار کرتے تھے ، کہتے تھے : «لَبَیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ» یعنی یا اللہ ! ہم حاضر ہوئے ، تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کا مالک اور جن کے ملک کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1185)