سورة العنكبوت - آیت 50

وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

انہوں نے کہا کہ اس پر کچھ نشانیاں (معجزات) اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتارے گئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں (١) میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کردینے والا ہوں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

محاسن کلام کا بےمثال جمال قرآن کریم کافروں کی ضد ، تکبر اور ہٹ دھرمی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی نشانی طلب کی جیسی کہ صالح سے ان کی قوم نے مانگی تھی ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے انہیں جواب دیجئے کہ آیتیں معجزے اور نشانات دکھانا میرے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اگر اس نے تمہاری نیک نیتیں معلوم کر لیں تو وہ معجزہ دکھائے گا اور اگر تم اپنی ضد اور انکار سے بڑھ بڑھ کر باتیں ہی بنا رہے ہو تو وہ اللہ تم سے دبا ہوا نہیں کہ اس کی چاہت تمہاری چاہت کے تابع ہو جائے تم جو مانگو وہ کر ہی دکھائے گا ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے کہ ’ آیتیں بھیجنے سے ہمیں کوئی مانع نہیں سوائے اس کے کہ گزشتہ لوگ بھی برابر انکار ہی کرتے رہے ۔ قوم ثمود کو دیکھو ہماری نشانی اونٹنی جو ان کے پاس آئی انہوں نے اس پر ظلم کیا ۔ ‘ ۱؎ (17-الإسراء:59) کہہ دو کہ میں تو صرف ایک مبلغ ہوں ، پیغمبر ہوں ، قاصد ہوں ، میراکام تمہارے کانوں تک آواز اللہ کو پہنچا دینا ہے میں نے تو تمہیں تمہارا برا بھلا سمجھا دیا ۔ نیک بد سمجھا دیا ۔ اب تم جانو تمہارا کام جانے ۔ ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے وہ اگر کسی کو گمراہ کر دے تو اس کی رہبری کوئی نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ ایک اور جگہ ہے : ’ تجھ پر ان کی ہدایت کا ذمہ نہیں یہ اللہ کا کام ہے اور اس کی چاہت پر موقوف ہے ۔ ‘ ۱؎ (2-البقرۃ:277) بھلا اس فضول گوئی کو تو دیکھو کہ کتاب عزیز ان کے پاس آ چکی جس کے پاس کسی طرف سے باطل پھٹک نہیں سکتا اور انہیں اب تک نشانی کی طلب ہے ۔ حالانکہ یہ تو تمام معجزات سے بڑھ کرمعجزہ ہے ۔ تمام دنیا کے فصیح وبلیغ اس کے معارضہ سے اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز آ گئے ۔ پورے قرآن کا تو معارضہ کیا کرتے ؟ دس سورتوں کا بلکہ ایک سورت کامعارضہ بھی چیلنج کے باوجود نہ کر سکے ۔ تو کیا اتنا بڑا اور اتنا بھاری معجزہ انہیں کافی نہیں ؟ جو اور معجزے طلب کرنے بیٹھے ہیں ۔ یہ تو وہ پاک کتاب ہے جس میں گزشتہ باتوں کی خبر ہے اور ہونے والی باتوں کی پیش گوئی ہے اور جھگڑوں کا فیصلہ ہے اور یہ اس کی زبان سے پڑھی جاتی ہے جو محض امی ہے ۔ جس نے کسی سے الف با بھی نہیں پڑھا جو ایک حرف لکھنا نہیں جانتا بلکہ اہل علم کی صحبت میں بھی کبھی نہیں بیٹھا ۔ اور وہ کتاب پڑھتا ہے جس سے گزشتہ کتابوں کی بھی صحت وعدم صحت معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ میں حلاوت جس کی نظم میں حلاوت ، جس کے انداز میں فصاحت ، جس کے بیان میں بلاغت جس کا طرز دلربا ، جس کا سیاق دلچسپ جس میں دنیا بھر کی خوبیاں موجود ہیں ۔ خود بنی اسرائیل کے علماء بھی اس کی تصدیق پر مجبور ، اگلی کتابیں جس پر شاہد ۔ بھلے لوگ جس کے مداح اور قائل وعامل ۔ اس اتنے بڑے معجزے کی موجودگی میں کسی اور معجزہ کی طلب محض بدنیتی اور گریز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس میں ایمان والوں کے لیے رحمت ونصیحت ہے ۔ یہ قرآن حق کا ظاہر کرنے اور باطل کو برباد کرنے والا ہے ۔ گزشتہ لوگوں کے واقعات تمہارے سامنے رکھ کر تمہیں نصیحت وعبرت کا موقعہ دیتا ہے ۔ گنہگاروں کا انجام دکھا کر تمہیں گناہوں سے روکتا ہے ۔ کہدو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے ۔ وہ تمہاری تکذیب وسرکشی کو اور میری سچائی و خیر خواہی کو بخوبی جانتا ہے ۔ اگر میں اس پر جھوٹ باندھتا تو وہ ضرور مجھ سے انتقام لیتا وہ ایسے لوگوں کو بغیر انتقام نہیں چھوڑتا ۔ جیسے خود اس کا فرمان ہے کہ ’ اگر یہ رسول مجھ پر ایک بات بھی گھڑ لیتا تو میں اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جاں کاٹ دیتا اور کوئی نہ ہوتا جو اسے میرے ہاتھ سے چھڑا سکے ۔ ‘ ۱؎ (69-الحاقۃ:44-47) چونکہ اس پر میری سچائی روشن ہے اور میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں اور اس کا نام لے کر اس کی کہی ہوئی تم سے کہتا ہوں اس لیے وہ میری تائید کرتا ہے اور مجھے روز بروز غلبہ دیتاجاتا ہے اور مجھ سے معجزات پر معجزات ظاہر کراتا ہے ۔ وہ زمین و آسمان کے غیب کاجاننے والا ہے اس پر ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ، باطل کا ماننے والے اور اللہ کو نہ ماننے والے ہی نقصان یافتہ اور ذلیل ہیں قیامت کے دن انہیں ان کی بداعمالی کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا اور جو سرکشیاں دنیا میں کی ہیں سب کا مزہ چکھنا پڑے گا ۔ بھلا اللہ کو نہ ماننا اور بتوں کو ماننا اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا ؟ وہ علیم وحکیم اللہ اس کا بدلہ دیئے بغیر ہرگز نہیں رہے گا ۔