إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
یقیناً اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز۔ (١) ایمان والے تو اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ (٢) اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔
اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا ۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:398/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:399/1) اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی ۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا ۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ» ( 6 ۔ الانعام : 44 ) جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:398/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے ۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لیے ہے اور «بعوضۃ» کا زیر بدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے یا ” ما “ نکرہ موصوفہ ہے اور «بعوضہ» صفت ہے ابن جریر ” ما “ کا موصولہ ہونا اور “ بعوضہ “ کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لیے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے ۔ «یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمد ایانا» ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل حُبِّ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ “ بعوضہ “ منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے ۔ کسائی رحمہ اللہ اور فراء رحمہ اللہ اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ اور ابراہیم بن عبلہ رحمہ اللہ «بعوضہ» پڑھتے ہیں ۔ ابن جنبی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ «ما» کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت «تَمَامًا عَلَی الَّذِی أَحْسَنَ» ( 6-الأنعام : 154 ) میں «فما فوقھا» کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز ۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے ۔ کسائی رحمہ اللہ اور ابوعبیدہ رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۔ (سنن ترمذی:2320 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لیے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی ؟ قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2572:صحیح) اس حدیث میں بھی یہی لفظ «فوقھا» ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے ۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں ۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذٰبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ» ( 22-الحج : 73 ) کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہو جائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ عابد اور معبود دونوں ہی بے حد کمزور ہیں ۔ دوسری جگہ فرمایا «مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ أَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ» ( 29-العنکبوت : 41 ) ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے ۔ اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے «أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَہَا مِن قَرَارٍ یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللہُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاءُ» ( 14-إبراہیم : 24 - 27 ) کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو ۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لیے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے ۔ دوسری جگہ فرمایا «ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوکًا لَّا یَقْدِرُ عَلَیٰ شَیْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا» ( 16-النحل : 75 ) اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں ۔ اور جگہ فرمایا «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا أَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلَیٰ شَیْءٍ وَہُوَ کَلٌّ عَلَیٰ مَوْلَاہُ أَیْنَمَا یُوَجِّہہٰ لَا یَأْتِ بِخَیْرٍ ہَلْ یَسْتَوِی ہُوَ وَمَن یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ » ( 16-النحل : 76 ) دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ہے «ضَرَبَ لَکُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِکُمْ ہَل لَّکُم مِّن مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُم مِّن شُرَکَاءَ فِی مَا رَزَقْنَاکُمْ» ( 30-الروم : 28 ) اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو ؟ اور جگہ ارشاد ہے «ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیہِ شُرَکَاءُ مُتَشَاکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ» ( 39-الزمر : 29 ) ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور «وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» ( 29-العنکبوت : 43 ) انہیں ( پوری طرح ) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں ۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:93/1) قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں ۔ «انہ» کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورۃ المدثر میں آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰیِٕکَۃً» ( 74 ۔ المدثر : 31 ) یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے ۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا ۔ ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں ۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:408/1) فاسقین سے مراد منافق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں ۔ سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں ۔ اگر اس قول کی سند سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے ۔ جنہوں نے نہروان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں ۔ انہیں خارجی اس لیے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے ۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو ۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں «فسقت» چوہے کو بھی «فویسقہ» کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے ۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں ۔ کوا ، چیل ، بچھو ، چوہا اور کالا کتا ۔ (صحیح بخاری:3314:صحیح) پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں ۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں ۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورۃ الرعد میں بیان ہے کہ آیت «أَفَمَن یَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ الْحَقٰ کَمَنْ ہُوَ أَعْمَیٰ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا یَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ» ( 13-الرعد : 19 - 21 ) کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو ؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں ۔ آگے چل کر فرمایا «وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولٰئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَالْمَلَائِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللہِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُولٰئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ( 13-الرعد : 22 - 25 ) جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لیے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے ۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے ۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر اور ان کے منافق ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں ۔ عہد سے مراد توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے ۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت «وَإِذْ أَخَذَ رَبٰکَ مِن بَنِی آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَیٰ شَہِدْنَا» (7-الأعراف:172) کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا «بَلَیٰ» بیشک تو ہمارا رب ہے ۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت «وَأَوْفُوا بِعَہْدِی أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ» ( البقرۃ : 40 ) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا ۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت «وَاِذْ اَخَذَ رَبٰکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ قَالُوا بَلَیٰ ۛ شَہِدْنَا» (7-الأعراف:172) جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا ۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے ۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں ۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا ، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے ، انہیں نہ ملانا ، زمین میں فساد پھیلانا ۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا ، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے ۔ جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت «فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ» ( 47 ۔ محمد : 22 ) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:416/1) ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی ۔ «خاسرون» سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:101/1) جیسے فرمان باری ہے ۔ آیت «اُولٰیِٕکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْءُ الدَّارِ» ( 13 ۔ الرعد : 25 ) ان لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لیے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:417/1) خاسرون جمع ہے خاسر کی ۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لیے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافر و منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے ۔