فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس مار ڈالو یا اسے جلا (١) دو آخر اللہ نے انھیں آگ سے بچا لیا (٢) اس میں ایماندار لوگوں کے لئے تو بہت سی نشانیاں ہیں۔
عقلی اور نقلی دلائل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ عقلی اور نقلی دلائل کا وعظ بھی ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہ کر سکا اور انہوں نے یہاں بھی اپنی اسی شقاوت کا مظاہرہ کیا ۔ جواب تو دلیلوں کا دے نہیں سکتے تھے لہٰذا اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے اور اپنی طاقت سے سچ کو روکنے لگے کہنے لگے ایک گڑھا کھودو اس میں آگ بھڑکاؤ اور اس آگ میں اسے ڈال دو کہ جل جائے ۔ لیکن اللہ نے ان کے اس مکر کو انہی پر لوٹا دیا مدتوں تک لکڑیاں جمع کرتے رہے اور ایک گڑھا کھود کر اس کے اردگرد احاطے کی دیواریں کھڑی کر کے لکڑیوں میں آگ لگا دی جب اس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے اور اتنی زور کی آگ روشن ہوئی کہ زمین پر کہیں اتنی آگ نہیں دیکھی گئی تو ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر باندھ کر منجنیق میں ڈال کر جھلا کر اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے اسے اپنے خلیل علیہ السلام پر باغ وبہار بنا دیا آپ کئی دن کے بعد صحیح سلامت اس میں سے نکل آئے ۔ یہ اور اس جیسی قربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کو امامت کا منصب عطا ہوا ۔ اپنا نفس آپ نے رحمان کے لیے ، اپنا جسم آپ نے میزان کے لیے ، اپنی اولاد آپ نے قربانی کے لیے ، اپنا مال آپ نے فیضان کے لیے کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کل ادیان والے آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ اللہ نے آگ کو آپ کے لیے باغ بنا دیا ۔ اس واقعہ میں ایمانداروں کے لیے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے ۔ «مَوَدَّۃً» زبر کے ساتھ مفعول لہ ہے ۔ ایک قرأت میں پیش کے ساتھ بھی ہے یعنی تمہاری یہ بت پرستی تمہارے لیے گو دنیا کی محبت حاصل کرا دے ۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہو جائے گا مودۃ کی جگہ نفرت اور اتفاق کے بدلے اختلاف ہو جائے گا ۔ ایک دوسرے سے جھگڑو گے ، ایک دوسرے پر الزام رکھو گے ، ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے ۔ ہر گروہ دوسرے گروہ پر پھٹکار برسائے گا ۔ سب دوست دشمن بن جائیں گے ۔ ہاں پرہیزگار ، نیکو کار آج بھی ایک دوسرے کے خیرخواہ اور دوست رہیں گے ۔ کفار سب کے سب میدان قیامت کی ٹھوکریں کھا کھا کر بالآخر جہنم میں جائیں گے ۔ کوئی اتنا بھی نہ ہو گا کہ ان کی کسی طرح مدد کر سکے ۔ حدیث میں ہے { تمام اگلے پچھلوں کو اللہ تعالیٰ ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ کون جان سکتا ہے کہ دونوں سمت میں کس طرف ؟ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں ، نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ علم والا ہے ۔ پھر ایک منادی عرش تلے سے آواز دے گا کہ اے موحدو ! تب توحید والے اپنا سر اٹھائیں گے پھر یہی آواز لگائے گا پھر سہ بارہ یہی پکارے گا اور کہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تمام لغزشوں سے درگزر فرما لیا ۔ اب لوگ کھڑے ہونگے اور آپ کی ناچاقیوں اور لین دین کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے آواز دی جائے گی کہ اے اہل توحید تم تو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دو تمہیں اللہ بدل دے گا ۔ } ۱؎ (طبرانی اوسط:4803:ضعیف)