وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
کافروں نے ایمانداروں سے کہا کہ تم ہماری راہ کی تابعداری کرو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے (١) حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والے، یہ تو محض جھوٹے ہیں۔ (٢)
گناہ کسی کا اور سزا دوسرے کو کفار قریش مسلمانوں کو بہکانے کے لیے ان سے یہ بھی کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب پر عمل کرو اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہم پر ۔ حالانکہ یہ اصولاً غلط ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی اٹھائے ۔ یہ بالکل دروغ گو ہیں ۔ کوئی اپنے قرابت داروں کے گناہ بھی اپنے اوپر نہیں لے سکتا ۔ دوست دوست کو اس دن نہ پوچھے گا ۔ ہاں یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے بوجھ بھی ان پر لادے جائیں گے مگر وہ گمراہ شدہ لوگ ہلکے نہ ہوں گے ۔ ان کا بوجھ ان پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «لِیَحْمِلُوا أَوْزَارَہُمْ کَامِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِینَ یُضِلٰونَہُم بِغَیْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا یَزِرُونَ» ۱؎ (16-النحل:25) یعنی ’ یہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں بہکایا تھا ان کے بہکانے کا گناہ بھی ان پر ہو گا ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے کہ { جو ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے ۔ قیامت تک جو لوگ اس ہدایت پر چلیں گے ان سب کو جتنا ثواب ہو گا اتنا ہی اس ایک کو ہو گا لیکن ان کے ثوابوں میں سے گھٹ کر نہیں ۔ اسی طرح جس نے برائی پھیلائی اس پر جو بھی عمل پیرا ہوں ان سب کو جتنا گناہ ہو گا اتنا ہی اس ایک کو ہو گا لیکن ان گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:6745) اور حدیث میں ہے کہ { زمین پر جتنی خون ریزیاں ہوتی ہیں ، آدم علیہ السلام کا وہ لڑکا جس نے اپنے بھائی کو ناحق قتل کر دیا تھا ، اس پر اس خون کا وبال پڑتا ہے ، اس لیے کہ قتلِ بےجا اسی سے شروع ہوا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3335) ان کے تمام بہتان ، جھوٹ ، افترا کی ان سے بروز قیامت بازپرس ہو گی ۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تمام رسالت پہنچا دی ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ { ظلم سے بچو کیونکہ قیامت والے دن اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی اور اپنے جلال کی قسم آج ایک ظالم کو بھی میں نہ چھوڑوں گا ۔ پھر ایک منادیٰ ندا کرے گا کہ فلاں فلاں کہاں ہے ؟ وہ آئے گا اور پہاڑ کے پہاڑ نیکیوں کے اس کے ساتھ ہوں گے یہاں تک کہ اہل محشر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں گی ۔ وہ اللہ کے سامنے آ کر کھڑا ہو جائے گا پھر منادیٰ ندا کرے گا کہ اس طرف سے کسی کا کوئی حق ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو وہ آ جائے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ اب تو ادھر ادھر سے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسے گھیر کر اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے ان بندوں کو ان کے حق دلواؤ ۔ فرشتے کہیں گے : اے اللہ ! کیسے دلوائیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس کی نیکیاں لو اور انہیں دو ۔ چنانچہ یوں ہی کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک نیکی باقی نہیں رہے گی اور ابھی تک بعض مظلوم اور حقدار باقی رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا انہیں بھی بدلہ دو فرشتے کہیں گے : اب تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں رہی ۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا : ان کے گناہ اس پر لاد دو ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی «وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَہُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِہِمْ وَلَیُسْأَلُنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَمَّا کَانُوا یَفْتَرُونَ» } ۱؎ (صحیح مسلم:2581) ابن ابی حاتم میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے معاذ رضی اللہ عنہ ! قیامت کے دن مومن کی تمام کوششوں سے سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سرمے اور اس کے مٹی کے گوندھے سے بھی ۔ دیکھ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی اور تیری نیکیاں لے جائے ۔ } ۱؎ (ابونعیم فی الحلیۃ:31/10:ضعیف)