سورة العنكبوت - آیت 1

لم

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ا لم

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

امتحان اور مومن حروف مقطعہ کی بحث سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں گزر چکی ہے ۔ پھر فرماتا ہے : یہ ناممکن ہے کہ مومنوں کو بھی امتحان سے چھوڑ دیا جائے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے ، پھر صالح نیک لوگوں کا ، پھر ان سے کم درجے والے ، پھر ان سے کم درجے والے ۔ انسان کا امتحان اس کے دین کے اندازے پر ہوتا ہے اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے تو مصیبتیں بھی سخت نازل ہوتی ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2398،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی مضمون کا بیان اس آیت میں بھی ہے «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِ‌ینَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) یعنی ’ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے مجاہد کون ہے ؟ ‘ اسی طرح سورۃ برات اور سورۃ بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ ’ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم جنت میں یونہی چلے جاؤ گے ؟ اور اگلے لوگوں جیسے سخت امتحان کے موقعے تم پر نہ آئیں گے ۔ جیسے کہ انہیں بھوک ، دکھ ، درد وغیرہ پہنچے ۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ؟ یقین مانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے ۔ ‘ ۱؎ (2-البقرۃ:214) یہاں بھی فرمایا : ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی ، انہیں بھی سرد و گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صرف زبانی دعوے کرتے ہیں ، ان میں تمیز ہو جائے ۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ اسے جانتا نہ تھا وہ ہر ہو چکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے ۔ اس پر اہل سنت والجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے ۔ پس یہاں علم روایت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما «لِنَعْلَمَ» کے معنی «لِنَرَی» کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کا تعلق موجود چیزوں سے ہوتا ہے اور علم اس سے عام ہے ۔ پھر فرمایا ہے جو ایمان نہیں لائے وہ بھی یہ گمان نہ کریں کہ امتحان سے بچ جائیں گے بڑے بڑے عذاب اور سخت سزائیں ان کی تاک میں ہیں ۔ یہ ہاتھ سے نکل نہیں سکتے ۔ ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ۔ ان کے یہ گمان نہایت برے ہیں جن کا برا نتیجہ یہ عنقریب دیکھ لیں گے ۔