قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کہہ دیجئے! کہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہر کرو اللہ تعالیٰ بہر حال جانتا ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسے معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تعالٰی سے ڈر ہمارے لئے بہتر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پوشیدہ کو اور چھپی ہوئی باتوں کو اور ظاہر باتوں کو بخوبی جانتا ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس پر پوشیدہ نہیں اس کا علم سب چیزوں کو ہر وقت اور ہر لحظہ گھیرے ہوئے ہے۔ زمین کے گوشوں میں، پہاڑوں میں، سمندروں میں، آسمانوں میں، ہواؤں میں، سوراخوں میں، غرض جو کچھ جہاں کہیں ہے سب اس کے علم میں ہے پھر ان سب پر اس کی قدرت ہے جس طرح چاہے رکھے جو چاہے جزا سزا دے، پس اتنے بڑے وسیع علم والے اتنی بڑی زبردست قدرت والے سے ہر شخص کو ڈرتے ہوئے رہنا چاہیئے۔ اس کی فرمانبرداری میں مشغول رہنا چاہیئے اور اس کی نافرمانیوں سے علیحدہ رہنا چاہیئے، وہ عالم بھی ہے اور قادر بھی ہے ممکن ہے کسی کو ڈھیل دیدے لیکن جب پکڑے گا تب دبوچ لے گا پھر نہ مہلت ملے گی نہ رخصت، ایک دن آنے والا ہے جس دن تمام عمر کے برے بھلے سب کام سامنے رکھ دئیے جائیں گے، نیکیوں کو دیکھ کر خوشی ہو گی اور برائیوں پر نظریں ڈال کر دانت پیسے گا اور حسرت و افسوس کرے گا اور چاہے گا کہ میں ان سے کوسوں دور رہتا اور پرے ہی پرے رہتا ۔ قرآن نے اور جگہ فرمایا «یُنَبَّأُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ» (75-القیامۃ:13) سب گزری ہوئی باتیں اس دن پیش کر دی جائیں گی، شیطان جو اس کے ساتھ دنیا میں رہتا تھا اور اسے برائیوں پر اکساتا تھا اس سے بھی اس دن بیزاری کرے گا اور کہے گا «یَا لَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِینُ» (43-الزخرف:38) کیا اچھا ہوتا کہ اے شیطان میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا وہ تو بڑا برا ساتھی ہے ۔ پھر فرمایا اللہ تمہیں اپنے یعنی اپنے عذاب سے ڈرا دھمکا رہا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ اپنے نیک بندوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ وہ اس کے لطف و کرم سے کبھی ناامید نہ ہوں وہ نہایت ہی مہربان بہت رحم اور پیار رکھنے والا ہے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بھی اس کی سراسر مہربانی و لطف و محبت ہے کہ اس نے اپنے سے نہیں بلکہ اپنے عذاب سے اپنے بندوں کو ڈرایا، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6/202) یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحیم بندوں کو بھی چاہے کہ صراط مستقیم سے قدم نہ ہٹائیں دین پاک کو نہ چھوڑیں رسول اللہ کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑیں۔